معاویہ بن حیدہ قشیری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو تہمت ۱؎ کی بنا پر قید کیا، پھر (الزام ثابت نہ ہونے پر) اس کو رہا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- بہز بن حکیم بن معاویہ بن حیدۃ قشیری کی حدیث جسے وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں، حسن ہے، ۳- اسماعیل بن ابراہیم ابن علیہ نے بہز بن حکیم سے یہ حدیث اس سے زیادہ مکمل اور مطول روایت کی ہے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اس تہمت اور الزام کے کئی سبب ہو سکتے ہیں: اس نے جھوٹی گواہی دی ہو گی، یا اس کے خلاف کسی نے اس کے مجرم ہونے کا دعویٰ پیش کیا ہو گا، یا اس کے ذمہ کسی کا قرض باقی ہو گا، پھر اس کا جرم ثابت نہ ہونے پر اسے رہا کر دیا گیا ہو گا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جرم ثابت ہونے سے قبل قید و بند کرنا ایک شرعی امر ہے۔
۲؎: پوری حدیث کے لیے دیکھئیے سنن ابی داود حوالہ مذکور۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1417
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: اس تہمت اورالزام کے کئی سبب ہوسکتے ہیں: اس نے جھوٹی گواہی دی ہوگی، یا اس کے خلاف کسی نے اس کے مجرم ہونے کا دعوی پیش کیا ہوگا، یا اس کے ذمہ کسی کا قرض باقی ہوگا، پھر اس کا جرم ثابت نہ ہونے پر اسے رہا کر دیا گیا ہو گا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جرم ثابت ہونے سے قبل قید وبند کرنا ایک شرعی امر ہے۔
2؎: پوری حدیث کے لیے دیکھئے سنن ابی داؤد حوالہ ٔ مذکور۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1417
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3630
´قرض وغیرہ کی وجہ سے کسی کو قید کرنے کا بیان۔` معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک الزام میں ایک شخص کو قید میں رکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3630]
فوائد ومسائل: فائدہ: جس شخص پر الزام ہو مگر حقیقت واضح نہ ہو تو اسے حقیقت واضح ہونے تک تحقیق کی غرض سے مختصر وقت کے لئے قید کرنا جائز ہے۔ تاہم قید کاعرصہ بلاوجہ غیر معمولی طور پر لمبا کرنا (جیسا کہ آج کل معمول ہے۔ ) شرعا ً محل نظر ہے، اس سے بہت سے مفاسد جنم لیتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3630