(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني، حدثنا المعتمر بن سليمان، قال: سمعت عبد الملك يحدث، عن عبد الله بن موهب، ان عثمان، قال لابن عمر: اذهب، فاقض بين الناس، قال: او تعافيني يا امير المؤمنين، قال: فما تكره من ذلك، وقد كان ابوك، يقضي، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من كان قاضيا، فقضى بالعدل فبالحري، ان ينقلب منه كفافا، فما ارجو بعد ذلك "، وفي الحديث قصة. وفي الباب: عن ابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث غريب، وليس إسناده عندي بمتصل، وعبد الملك الذي روى عنه المعتمر هذا هو عبد الملك بن ابي جميلة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الْمَلِكِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، أَنَّ عُثْمَانَ، قَالَ لِابْنِ عُمَرَ: اذْهَبْ، فَاقْضِ بَيْنَ النَّاسِ، قَالَ: أَوَ تُعَافِينِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: فَمَا تَكْرَهُ مِنْ ذَلِكَ، وَقَدْ كَانَ أَبُوكَ، يَقْضِي، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ كَانَ قَاضِيًا، فَقَضَى بِالْعَدْلِ فَبِالْحَرِيِّ، أَنْ يَنْقَلِبَ مِنْهُ كَفَافًا، فَمَا أَرْجُو بَعْدَ ذَلِكَ "، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ الَّذِي رَوَى عَنْهُ الْمُعْتَمِرُ هَذَا هُوَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ.
عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ عثمان رضی الله عنہ نے ابن عمر رضی الله عنہما سے کہا: جاؤ (قاضی بن کر) لوگوں کے درمیان فیصلے کرو، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ مجھے معاف رکھیں گے، عثمان رضی الله عنہ نے کہا: ”تم اسے کیوں برا سمجھتے ہو، تمہارے باپ تو فیصلے کیا کرتے تھے؟“ اس پر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو قاضی ہوا اور اس نے عدل انصاف کے ساتھ فیصلے کئے تو لائق ہے کہ وہ اس سے برابر سرابر چھوٹ جائے“(یعنی نہ ثواب کا مستحق ہو نہ عقاب کا)، اس کے بعد میں (بھلائی کی) کیا امید رکھوں، حدیث میں ایک قصہ بھی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث غریب ہے، میرے نزدیک اس کی سند متصل نہیں ہے۔ اور عبدالملک جس سے معتمر نے اسے روایت کیا ہے عبدالملک بن ابی جمیلہ ہیں، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7288) (ضعیف) (سند میں عبد الملک بن ابی جمیلہ مجہول ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف تخريج المشكاة (3743 / التحقيق الثاني)، التعليق الرغيب (2 / 132)، التعليق على الأحاديث المختارة رقم (348 و 349) // ضعيف الجامع الصغير (5799) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1/1322) إسناده ضعيف عبدالملك بن أبى جميلة: مجھول (تق:4170)
القضاة ثلاثة قاضيان في النار وقاض في الجنة رجل قضى بغير الحق فعلم ذاك فذاك في النار وقاض لا يعلم فأهلك حقوق الناس فهو في النار وقاض قضى بالحق فذلك في الجنة
القضاة ثلاثة واحد في الجنة واثنان في النار فأما الذي في الجنة فرجل عرف الحق فقضى به ورجل عرف الحق فجار في الحكم فهو في النار ورجل قضى للناس على جهل فهو في النار
القضاة ثلاثة اثنان في النار وواحد في الجنة رجل علم الحق فقضى به فهو في الجنة ورجل قضى للناس على جهل فهو في النار ورجل جار في الحكم فهو في النار لقلنا إن القاضي إذا اجتهد فهو في الجنة
القضاة ثلاثة : اثنان في النار وواحد في الجنة : رجل عرف الحق فقضى به فهو في الجنة ورجل عرف الحق فلم يقض به وجار في الحكم فهو في النار ورجل لم يعرف الحق فقضى للناس على جهل فهو في النار
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1188
´(قضاء کے متعلق احادیث)` سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” قاضی کی تین اقسام ہیں دو دوزخی ہیں اور ایک جنتی۔ ایک وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے اور دوسرا وہ جس نے حق کی پہچان کر لی مگر فیصلہ حق کے ساتھ نہ دیا۔ بلکہ فیصلہ میں ظلم کیا وہ دوزخی ہے اور تیسرا وہ جس نے نہ حق کو پہچانا نہ حق کے ساتھ فیصلہ کیا بلکہ اس نے لوگوں میں جہالت و نادانی سے فیصلہ کیا وہ بھی دوزخی ہے۔“ اسے ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1188»
تخریج: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب في القاضي يخطيء، حديث:3573، والترمذمي، الأحكام، حديث:1322م، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2315، والنسائي، في الكبرٰي:3 /462، حديث:5922، والحاكم:4 /90.»
تشریح: 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر سیرحاصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل:۸ /۲۳۵.۲۳۷‘ رقم: ۲۶۱۴) 2. اس حدیث میں عدالت میں فیصلہ کرنے والوں کی اقسام بیان ہوئی ہیں جنھیں قاضی یا جج کہا جاتا ہے۔ ان میں سے دو قسم کے قاضی تو ایسے ہیں جو دوزخ کا ایندھن بننے والے ہیں۔ ایک حق کو نہ جاننے اور پہچاننے والا اور دوسرا حق کو جان پہچان کر اس کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا۔ اس میں اس کی بددیانتی کو بھی دخل ہو سکتا ہے اور تفتیش و تحقیق میں سستی اور بے پروائی بھی ہو سکتی ہے۔ اور دوزخ سے بچنے والا قاضی وہ ہے جو حق کو پہچان کر حق دار کو اس کا حق دیتا ہے۔ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتا۔ 3. اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جاہل شخص کو عہدہ قضا پر بٹھانا درست نہیں۔ 4.کسی بھی متنازعہ مسئلے کا فیصلہ نمٹانے کے لیے حق معلوم کرنا اور پھر اس کے مطابق فیصلہ کرنا فرض اور واجب ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1188
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3573
´قاضی (جج) سے فیصلہ میں غلطی ہو جائے تو کیسا ہے؟` بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک جنتی اور دو جہنمی، رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہو گا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا، اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا تو وہ جہنمی ہے۔“ اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ یعنی ابن بریدہ کی ”تین قاضیوں“ والی حدیث اس باب میں سب سے صحیح روایت ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3573]
فوائد ومسائل: فائدہ: جانتے بوجھتے حق کے خلاف فیصلہ دینا اور جاہل ہوتے ہوئے لوگوں میں فیصلے کرنے بیٹھ جانا، دونوں صورتوں میں اپنے آپ کو جہنم میں جھونکنا ہے۔ لہذا واجب ہے کہ یہ منصب اصحاب علم اور اصحاب عزیمت ہی کے سپرد کیا جائے اور وہ بھی جرءت سے کام لیں اور جنت کے حقدار بنیں جبکہ ان لوگوں کے پس منظرمیں رہنے سے ظالم ظلم کرتے ہیں۔ اور جہالت کا غلبہ اور اس کی اشاعت ہوتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3573
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2315
´اجتہاد کر کے صحیح فیصلہ تک پہنچنے والے حاکم کے اجر و ثواب کا بیان۔` ابوہاشم کہتے ہیں کہ اگر ابن بریدہ کی یہ روایت نہ ہوتی جو انہوں نے اپنے والد (بریدہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاضی تین طرح کے ہیں: ان میں سے دو جہنمی ہیں اور ایک جنتی، ایک وہ جس نے حق کو معلوم کیا اور اسی کے مطابق فیصلہ دیا، تو وہ جنت میں جائے گا، دوسرا وہ جس نے لوگوں کے درمیان بغیر جانے بوجھے فیصلہ دیا، تو وہ جہنم میں جائے گا، تیسرا وہ جس نے فیصلہ کرنے میں ظلم کیا (یعنی جان کر حق کے خلاف فیصلہ دیا) تو وہ بھی جہنمی ہو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2315]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور ان کے نزدیک یہ ورایت قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی تحقیق میں کافی شافی بحث کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الإرواء: 8/ 235، رقم: 2614) بنابریں جج کا عہدہ بہت بڑی ذمے داری کا حامل ہے۔
(2) جج کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ کرنے وقت اسے یقین ہو کہ صحیح بات یہ ہے پھر اس کے مطابق فیصلہ کرے۔
(3) سرسری سماعت کے بعد فیصلہ دے دینا جب کہ معاملے کی پوری طرح چھان بین کرکے حق معلوم نہ کیا گیا ہو جائز نہیں۔
(4) جب یقین ہو جائے کہ حق فلاں فریق کا ہے پھر فیصلہ دوسرے کے حق میں دے دیا جائے یہ ظلم ہے اور اس کی سزا جہنم ہے۔ اس نا انصافی کی وجہ بعض اوقات کوئی وقتی دنیوی مفاد ہوتا ہے۔ یہ مفاد رشوت میں شامل ہے جس کی وجہ سے لعنت پڑتی ہے۔ (دیکھیے حدیث: 2313)
(5) اجتہادی غلطی معاف ہونے کے باوجود حق تبدیل نہیں ہوتا اس لیے جب معلوم ہو جائے کہ غلطی ہو گئی ہے تو قاضی یا مجتہد کو اپنے فیصلے یا فتوے سے رجوع کر لینا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2315
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثني الحسن بن بشر، حدثنا شريك، عن الاعمش، عن سعد بن عبيدة، عن ابن بريدة، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " القضاة ثلاثة: قاضيان في النار، وقاض في الجنة، رجل قضى بغير الحق، فعلم ذاك، فذاك في النار، وقاض لا يعلم فاهلك حقوق الناس، فهو في النار، وقاض قضى بالحق فذلك في الجنة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ: قَاضِيَانِ فِي النَّارِ، وَقَاضٍ فِي الْجَنَّةِ، رَجُلٌ قَضَى بِغَيْرِ الْحَقِّ، فَعَلِمَ ذَاكَ، فَذَاكَ فِي النَّارِ، وَقَاضٍ لَا يَعْلَمُ فَأَهْلَكَ حُقُوقَ النَّاسِ، فَهُوَ فِي النَّارِ، وَقَاضٍ قَضَى بِالْحَقِّ فَذَلِكَ فِي الْجَنَّةِ ".
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں: دو جہنمی، اور ایک جنتی، ایک وہ جو جان بوجھ کرنا حق فیصلے کرے، وہ جہنمی ہے، دوسرا جو نہ جانتا ہو اور لوگوں کے حقوق برباد کر دے، وہ بھی جہنمی ہے، اور تیسرا وہ قاضی ہے جو حق کے ساتھ فیصلے کرے وہ جنتی ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ کسی جاہل کو قاضی بنانا درست نہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف تخريج المشكاة (3743 / التحقيق الثاني)، التعليق الرغيب (2 / 132)، التعليق على الأحاديث المختارة رقم (348 و 349) // ضعيف الجامع الصغير (5799) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2/1322) إسناده ضعيف / د 3573 جه 2315 الأعمش وشريك القاضي عنعنا (تقدما: 169، 112)