(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن يحيى بن سعيد، عن سليمان بن يسار، ان ابا هريرة، وابن عباس، وابا سلمة بن عبد الرحمن، تذاكروا المتوفى عنها زوجها الحامل تضع عند وفاة زوجها، فقال ابن عباس: تعتد آخر الاجلين، وقال ابو سلمة: بل تحل حين تضع، وقال ابو هريرة: انا مع ابن اخي يعني ابا سلمة، فارسلوا إلى ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: قد وضعت سبيعة الاسلمية بعد وفاة زوجها بيسير، فاستفتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فامرها ان تتزوج. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، تَذَاكَرُوا الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا الْحَامِلَ تَضَعُ عِنْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَعْتَدُّ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: بَلْ تَحِلُّ حِينَ تَضَعُ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ، فَأَرْسَلُوا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: قَدْ وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ الْأَسْلَمِيَّةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِيَسِيرٍ، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی الله عنہم نے آپس میں اس حاملہ عورت کا ذکر کیا جس کا شوہر فوت ہو چکا ہو اور اس نے شوہر کی وفات کے بعد بچہ جنا ہو، ابن عباس رضی الله عنہما کا کہنا تھا کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہو گی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی، اور ابوسلمہ کا کہنا تھا کہ جب اس نے بچہ جن دیا تو اس کی عدت پوری ہو گئی، اس پر ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں۔ پھر ان لوگوں نے (ایک شخص کو) ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس (مسئلہ معلوم کرنے کے لیے) بھیجا، تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد بچہ جنا۔ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (شادی کے سلسلے میں) مسئلہ پوچھا تو آپ نے اسے (دم نفاس ختم ہوتے ہی) شادی کرنے کی اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق 2 (4909)، صحیح مسلم/الطلاق 8 (1485)، سنن النسائی/الطلاق 56 (3542)، 3544)، مسند احمد (6/289)، سنن الدارمی/الطلاق 11 (2325) (تحفة الأشراف: 18157 و 18206) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الطلاق 39 (5318)، صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور)، سنن النسائی/الطلاق 56 (3539، 3540، 3541، 3543، 3545، 3546، 3547)، مسند احمد (6/312، 319) من غیر ہذا الوجہ، ولہ أیضا طرق أخری بسیاق آخر، انظر حدیث رقم (2306)، عند أبي داود و3548) عند النسائي۔»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2113)، صحيح أبي داود تحت الحديث (1196)