سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل
The Book on Divorce and Li'an
13. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَسْأَلُهُ أَبُوهُ أَنْ يُطَلِّقَ زَوْجَتَهُ
13. باب: باپ لڑکے سے کہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو تو کیا کرے؟
Chapter: What has been related about a man whose father asks him to divorce (his wife)
حدیث نمبر: 1189
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد، انبانا ابن المبارك، انبانا ابن ابي ذئب، عن الحارث بن عبد الرحمن، عن حمزة بن عبد الله بن عمر، عن ابن عمر، قال: كانت تحتي امراة احبها، وكان ابي يكرهها، فامرني ابي ان اطلقها، فابيت فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " يا عبد الله بن عمر، طلق امراتك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح إنما نعرفه من حديث ابن ابي ذئب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ أُحِبُّهَا، وَكَانَ أَبِي يَكْرَهُهَا، فَأَمَرَنِي أَبِي أَنْ أُطَلِّقَهَا، فَأَبَيْتُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، طَلِّقْ امْرَأَتَكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا نَعْرِفَهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی، میں اس سے محبت کرتا تھا، اور میرے والد اسے ناپسند کرتے تھے۔ میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں، لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ پھر میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: عبداللہ بن عمر! تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 129 (5138)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 36 (2088)، (تحفة الأشراف: 6701)، مسند احمد (2/42، 53) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2088)

   جامع الترمذي1189عبد الله بن عمرطلق امرأتك
   سنن أبي داود5138عبد الله بن عمرطلقها
   سنن ابن ماجه2088عبد الله بن عمرأمرني أن أطلقها فطلقتها

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1189 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1189  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ روایت اس بات پرواضح دلیل ہے کہ اگرباپ بیٹے کوحکم دے کہ وہ اپنی بیوی کوطلاق دے دے تو اسے طلاق دے دینی چاہئے گو وہ اسے بہت چاہتا ہواورماں،
باپ کے حکم میں بدرجہ اولیٰ داخل ہوگی اس لیے کہ بیٹے پر اس کا حق باپ سے بڑھ کر ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1189   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5138  
´ماں باپ کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ کو وہ ناپسند تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو، لیکن میں نے انکار کیا، تو عمر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے طلاق دے دو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5138]
فوائد ومسائل:
باپ کا یہ مقام اور حق ہے۔
کہ اگر وہ بیتے سے کہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔
تو اسے یہ حکم ماننا چاہیے، مگرشرط یہ ہے کہ باپ جو اپنے بیتے سے بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کررہا ہے۔
خود حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صفات کا حامل ہو۔
اور اس میں کوئی ہوائے نفس اور تعصب کی بات نہ ہو۔
صرف شرعی مصلحت پیش نظر ہو جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5138   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2088  
´اگر باپ بیٹے کو کہے کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دیدو تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا، اور میرے والد اس کو برا جانتے تھے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں، چنانچہ میں نے اسے طلاق دے دی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2088]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عام طور پر والدین کو اولاد کی خوشی محبوب ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ اولاد کی خوشی کے لیےناگوار باتیں بھی برداشت کر لیتے ہیں۔
اس صورت میں اگر والدین اپنی بہو سے تنگ ہیں تو عموماً کوئی معقول وجہ ہوتی ہے۔
خاص طور پر والد بلا وجہ بیٹے کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ بیوی کو طلاق دے دے۔

(2)
والدین کی خوشی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھنا والدین سے حسن سلوک میں شامل ہے
(3)
اگر والدین اپنے بیٹے کو ناجائز طور پر یہ حکم دیتے ہیں کہ بیوی کو طلاق دے دو تو بہتر ہے ادب و احترام سے والدین کو اپنی بات سمجھانےکی کوشش کی جائے۔
اگر وہ پھر بھی اپنی رائے پر اصرار کریں تو ان کے حکم کی تعمیل کی جائے۔
والدین کو غلط حکم دینے کا گناہ ہو گا جب کہ بیٹے کو والدین کے حکم تعمیل کا ثواب ہو گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2088   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.