عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معوذتین کے متعلق پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر میں انہیں دونوں سورتوں کے ذریعہ ہماری امامت فرمائی۔
وضاحت: ۱؎: معوذتین سے مراد «قل أعوذ برب الناس» اور «قل أعوذ برب الفلق» ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 953
953 ۔ اردو حاشیہ: ➊ معوذتین سے مراد قرآن مجید کی آخری دو سورتیں: « ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ » اور « ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ » ہیں۔ انہیں معوذتین اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ جادو اور جن وغیرہ کے شر سے انسان کو پناہ مہیا کرتی ہیں بلکہ ان کے اتارنے کا سبب ہی یہ ہے۔ ➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ دونوں سورتیں قرآن مجید کا جز ہیں اور انہیں نماز میں پڑھا جا سکتا ہے نہ کہ جیسا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ ”یہ صرف دم اور تعویذ کے لیے ہیں، ان کی قرأت درست نہیں اور نہ یہ قرآن کا جز ہیں۔“ اس حدیث کی مزید تفصیل اگلے باب میں آرہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سورتوں کو صبح کی نماز میں پڑھنا ان کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ ➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تو صبح کی نماز میں لمبی قرأت کرنا ہی تھا لیکن کبھی کبھی بیان جواز کے لیے چھوٹی سورتیں بھی پڑھ لیا کرتے تھے جیسے سورۂ زلزال کے بارے میں ہے کہ آپ نے فجر کی نماز میں اسے پڑھا تھا۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 816]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 953