(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار قال: حدثنا محمد بن جعفر غندر قال: حدثنا شعبة، عن الحكم، عن مجاهد، عن ابن ابي ليلى، عن ابي بن كعب ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عند اضاة بني غفار فاتاه جبريل عليه السلام فقال: إن الله عز وجل يامرك ان تقرئ امتك القرآن على حرف، قال:" اسال الله معافاته ومغفرته وإن امتي لا تطيق ذلك"، ثم اتاه الثانية، فقال: إن الله عز وجل يامرك ان تقرئ امتك القرآن على حرفين، قال:" اسال الله معافاته ومغفرته وإن امتي لا تطيق ذلك"، ثم جاءه الثالثة، فقال: إن الله عز وجل يامرك ان تقرئ امتك القرآن على ثلاثة احرف، فقال:" اسال الله معافاته ومغفرته وإن امتي لا تطيق ذلك"، ثم جاءه الرابعة فقال: إن الله عز وجل يامرك ان تقرئ امتك القرآن على سبعة احرف فايما حرف قرءوا عليه فقد اصابوا" قال: ابو عبد الرحمن: هذا الحديث خولف فيه الحكم خالفه منصور بن المعتمر. رواه، عن مجاهد، عن عبيد بن عمير مرسلا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ غُنْدَرٌ قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَ أَضَاةِ بَنِي غِفَارٍ فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَكَ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ، قَالَ:" أَسْأَلُ اللَّهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ"، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَكَ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفَيْنِ، قَالَ:" أَسْأَلُ اللَّهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ"، ثُمَّ جَاءَهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَكَ الْقُرْآنَ عَلَى ثَلَاثَةِ أَحْرُفٍ، فَقَالَ:" أَسْأَلُ اللَّهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ"، ثُمَّ جَاءَهُ الرَّابِعَةَ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَكَ الْقُرْآنَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَأَيُّمَا حَرْفٍ قَرَءُوا عَلَيْهِ فَقَدْ أَصَابُوا" قَالَ: أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ خُولِفَ فِيهِ الْحَكَمُ خَالَفَهُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ. رَوَاهُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ مُرْسَلًا.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ غفار کے تالاب کے پاس تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لائے، اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنی امت کو ایک ہی حرف پر قرآن پڑھائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ تعالیٰ سے عفو و مغفرت کی درخواست کرتا ہوں، اور میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی“، پھر دوسری بار جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے، اور انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنی امت کو دو حرفوں پر قرآن پڑھائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ سے عفو و مغفرت کا طلب گار ہوں، اور میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی“، پھر جبرائیل علیہ السلام تیسری بار آپ کے پاس آئے اور انہوں کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی امت کو قرآن تین حرفوں پر قرآن پڑھائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنے رب سے عفو و مغفرت کی درخواست کرتا ہوں، اور میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ہے“، پھر وہ آپ کے پاس چوتھی بار آئے، اور انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ اپنی امت کو سات حرفوں پر قرآن پڑھائیں، تو وہ جس حرف پر بھی پڑھیں گے صحیح پڑھیں گے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اس حدیث میں حکم کی مخالفت کی گئی ہے، منصور بن معتمر نے ان کی مخالفت کی ہے، اسے «مجاهد عن عبيد بن عمير» کے طریق سے مرسلاً روایت کیا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 940
940 ۔ اردو حاشیہ: ➊ ”سات حروف میں پڑھائیں۔“ سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں آراء و نظریات کا شدید اختلاف ملتا ہے یہاں تک کہ ابن العربی نے اس کے متعلق پینتیس (35) اقوال شمار کیے ہیں جن میں سے راجح ترین بات وہی ہے جو ہم نے (حدیث: 937 کے فوائد میں) ذکر کی ہے۔ باقی جتنے اقوال ہیں، ان میں کوئی نہ کوئی خامی اور وجہ تردید موجود ہے، ان میں مشہور اقوال یہ ہیں: ➊ بعض حضرات اس سے سات مشہور قرائے کرام کی قرأت یں مراد لیتے ہیں۔ لیکن یہ خیال غلط ہے کیونکہ ان سات قرأت وں کے علاوہ بھی متعدد قرأت یں تواتر سے ثابت ہیں۔ یہ سات قرأت یں اس لیے مشہور ہوئیں کہ انہیں ابن مجاہد رحمہ اللہ نے ایک کتاب میں جمع کر دیا تھا، لہٰذا اس سے سات قرأت یں ہی مراد لینا درست نہیں۔ (2) اس سے مراد تمام متواتر قرأت یں ہیں لیکن سات سے مراد مخصوص عدد نہیں بلکہ کثرت مراد ہے جیسا کہ اہل عرب سات کا لفظ چیز کی کثرت بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہی مذکورہ روایت جسے بخاری و مسلم نے بھی بیان کیا ہے، اس کا سیاق بالکل واضح ہے کہ اس سے مراد سات کا مخصوص عدد ہی ہے، محض کثرت مراد نہیں ہے۔ (3) ابن جریر طبری رحمہ اللہ وغیرہ نے اس سے قبائل عرب کی سات لغات مراد لی ہیں چونکہ اہل عرب مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور ہر قبیلے کی زبان عربی ہونے کے باوجود دوسرے قبیلے سے کچھ مختلف تھی اور یہ اختلاف ایسے ہی ہے جیسے کسی بھی بڑی زبان کا اختلاف علاقائی طور پر ہوتا ہے۔ پھر ان سات قبائل کی تعیین میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ لیکن بہت سے محققین، مثلاً: ابن عبدالبر، امام سیوطی اور ابن جزری رحمہم اللہ نے اس قول کی تردید کی ہے کیونکہ عرب کے بہت سے قبائل تھے۔ ان سات کے انتخاب کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ حضرت عمر اور ہشام رضی اللہ عنہما کے درمیان تلاوتِ قرآن میں اختلاف ہوا، حالانکہ یہ دونوں قریشی تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تصدیق فرمائی اور وجہ یہ بتائی کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ اگر اس سے سات قبائل مراد لیں تو حضرت عمر او رحضرت ہشام رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلاف کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ دونوں قریشی تھے۔ تیسرے یہ کہ یہ قول قرآن کے بھی خلاف ہے: « ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلا بِلِسَانِ قَوْمِهِ﴾ »[ابراہیم: 4: 14] ”اور ہم نے ہر رسول اس کی اپنی قوم کی زبان بولنے والا بھیجا۔“ اور یہ متفق علیہ بات ہے کہ آپ قریش ہی تھے۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کا یہی نظریہ ہے، ان کے نزدیک «سَبْعَةِ أَحْرُفٍ» اور «قرأت» دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ قرأت کا اختلاف جو آج تک موجود ہے، وہ صرف ایک حرف، یعنی قریش میں ہے، باقی حروف یا منسوخ ہو گئے یا انہیں مصلحتا ختم کر دیا گیا۔ اس پر دوسرے اشکالات کے علاوہ ایک اشکال یہ بھی ہوتا ہے کہ پورے ذخیرۂ احادیث میں کہیں یہ نہیں ملتاکہ تلاوتِ قرآن میں دو قسم کے اختلاف تھے: ایک سبعۃ احرف اور دوسرا قرأت کا بلکہ احادیث میں جہاں کہیں قرآن کریم کے لفظی اختلاف کا ذکر ہے، وہاں ”احرف“ کا اختلاف بیان ہوا ہے، قرأت کا کوئی جداگانہ اختلاف ذکر نہیں ہوا۔ ان وجوہ کی بنا پر یہ قول بھی نہایت کمزور ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋ اس حدیث مبارکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت پر کمال شفقت کا بھی ذکر ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: ”میں اللہ سے معافی اور بخشش کا طلب گار ہوں۔ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔“ اسی بات کو قرآن نے بیان کیا ہے: « ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ »[التوبة: 128: 9] ”یقیناًً تمہارے پاس تمھی میں سے ایک رسول آگیا ہے۔ اس پر تمھارا تکلیف میں مبتلا ہونا گراں گزرتا ہے، وہ تمھاری بھلائی کا بہت حریص ہے۔ مومنوں پر نہایت شفیق، بہت رحم کرنے والا ہے۔“ ➌ سات حروف میں سے جس حرف کے ساتھ پڑھا، جائے درست ہے۔ ➍ حضرت حکم نے یہ روایت عن مجاہد عن ابن ابی لیلیٰ عن ابی بن کعب کی سند سے متصل مرفوع بیان کی ہے، یعنی صحابی کا واسطہ بیان کیا ہے جبکہ حضرت منصور بن معتمر نے کسی صحابی کا ذکر نہیں کیا۔ عبید بن عمیر تابعی ہیں۔ محدثین کی اصلاح میں ایسی روایت کو مرسل کہتے ہیں، یعنی جس میں کوئی تابعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ بیان کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 940