سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام
The Book of the Commencement of the Prayer
37. بَابُ : جَامِعِ مَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ
37. باب: قرآن سے متعلق جامع باب۔
Chapter: Collection of what was narrated concerning the Quran
حدیث نمبر: 937
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا نصر بن علي قال: انبانا عبد الاعلى قال: حدثنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن ابن مخرمة، ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: سمعت هشام بن حكيم بن حزام يقرا سورة الفرقان فقرا فيها حروفا لم يكن نبي الله صلى الله عليه وسلم اقرانيها قلت: من اقراك هذه السورة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت: كذبت ما هكذا اقراك رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخذت بيده اقوده إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله إنك اقراتني سورة الفرقان وإني سمعت هذا يقرا فيها حروفا لم تكن اقراتنيها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقرا يا هشام" فقرا كما كان يقرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هكذا انزلت"، ثم قال:" اقرا يا عمر" فقرات فقال هكذا انزلت، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن القرآن انزل على سبعة احرف".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى قال: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنِ ابْنِ مَخْرَمَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فَقَرَأَ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ يَكُنْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا قُلْتُ: مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: كَذَبْتَ مَا هَكَذَا أَقْرَأَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ أَقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ وَإِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ تَكُنْ أَقْرَأْتَنِيهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ يَا هِشَام" فَقَرَأَ كَمَا كَانَ يَقْرَأُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ"، ثُمَّ قَالَ:" اقْرَأْ يَا عُمَرُ" فَقَرَأْتُ فَقَالَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان پڑھتے سنا، انہوں نے اس میں کچھ الفاظ اس طرح پڑھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس طرح نہیں پڑھائے تھے تو میں نے پوچھا: یہ سورت آپ کو کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا: آپ غلط کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس طرح کبھی نہیں پڑھائی ہو گی! چنانچہ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا، اور انہیں کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے سورۃ الفرقان پڑھائی ہے، اور میں نے انہیں اس میں کچھ ایسے الفاظ پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہشام! ذرا پڑھو تو، تو انہوں نے ویسے ہی پڑھا جس طرح پہلے پڑھا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سورت اسی طرح اتری ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! اب تم پڑھو تو، تو میں نے پڑھا، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح اتری ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: اس کی تفسیر میں امام سیوطی نے الاتقان میں (۳۰) سے زائد اقوال نقل کئے ہیں جس میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات مشہور لغات ہیں، بعضوں نے کہا اس سے مراد سات لہجے ہیں جو عربوں کے مختلف قبائل میں مروج تھے، اور بعضوں نے کہا کہ اس سے مراد سات مشہور قراتیں ہیں جنہیں قرات سبعہ کہا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الخصومات 4 (2419)، فضائل القرآن 5 (4992)، 27 (5041)، المرتدین 9 (6936)، التوحید 53 (7550)، صحیح مسلم/المسافرین 48 (818)، سنن ابی داود/الصلاة 357 (1475)، سنن الترمذی/القرائات 11 (2944)، (تحفة الأشراف: 10591، 10642)، موطا امام مالک/القرآن 4 (5)، مسند احمد 1/24، 40، 42، 43، 263 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 937 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 937  
937۔ اردو حاشیہ: ➊ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے «سَبْعَةِ أَحْرُفٍ» کی تشریح میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات و اشکالات پیش کر کے ان اقوال کی تردید کی ہے، پھر ترجیح دیتے ہوئے امام ابن قتیبہ اور امام ابوالفضل رازی رحمہا اللہ کے اقوال نقل کیے ہیں اور کہا ہے کہ امام رازی نے امام ابن قتیبہ ہی کی بات کو مزید نکھار کر پیش کیا ہے۔ ہم طوالت کے ڈر سے یہاں صرف راجح قول ہی ذکر کرتے ہیں جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے۔ امام ابن قتیبہ اور امام رازی کے نزدیک حدیث میں حروف کے اختلاف سے مراد قرأت کا اختلاف ہے۔ اور سات حروف سے مراد اختلاف قرأت کی سات توعیتیں ہیں، چنانچہ قرأتیں اگرچہ سات سے زائد ہیں لیکن ان قرأتوں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں، وہ سات اقسام میں منحصر ہے:
➊ اسماء کا اختلاف: جس میں افراد، تثنیہ، جمع اور تذکیر و تانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے، مثلاًً: ایک قرأت میں ہے: « ﴿تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ﴾ » اور دوسری میں ہے: « ﴿تَمَّتْ كَلِمَاتُ رَبِّكَ﴾ »
➋ افعال کا اختلاف کہ کسی قرأت میں صیغۂ ماضی ہو، کسی میں مضارع اور کسی میں امر، جیسے ایک قرأت کے مطابق « ﴿رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا﴾ » اور دوسری میں « ﴿رَبَّنَا بَعِّدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا﴾ » ہے۔
➌ وجوہ اعراب کا اختلاف: جس میں حرکا ت و سکنات مختلف قرأت وں میں مختلف ہوں، مثلاًً: « ﴿وَلا يُضَارَّ كَاتِبٌ﴾ » اور « ﴿وَلا يُضَارُّ كَاتِبٌ﴾ » اور « ﴿ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ﴾ » دوسری قرأت میں ہے: « ﴿ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدِ﴾ »
➍ الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف: ایک قرأت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو، مثلاًً: ایک قرأت میں « ﴿وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالأنْثَى﴾ » اور دوسری میں « ﴿وَالذَّكَرَ وَالأنْثَى﴾ » ہے۔ اس میں لفظ « ﴿وَمَا خَلَقَ﴾ » نہیں ہے۔ اسی طرح ایک قرأت میں ہے: « ﴿تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ﴾ » اور دوسری میں « ﴿تَجْرِي تَحْتَهَا الأنْهَارُ﴾ » ہے۔
➎ تقدیم و تاخیر کا اختلاف: یعنی ایک قرأت میں کوئی لفظ مقدم اور دوسری میں مؤخر ہو، مثلاًً: « ﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ » اور دوسری میں « ﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ﴾ » ہے۔
➏ بدلیت کا اختلاف، یعنی ایک قرأت میں ایک لفظ اور دوسری میں اس کی جگہ دوسرا لفظ ہو، مثلاًً: « ﴿نُنْشِزها﴾ » اور اس کی جگہ دوسری قرأت میں « ﴿نُنْشِرها﴾ » ہے، نیز « ﴿فَتَبَيَّنُوا﴾ » کی جگہ « ﴿فتئبتوا﴾ » اور « ﴿طَلْحٍ مَنْضُودٍ﴾ » کی جگہ « ﴿طَلْع مَنْضُودٍ﴾ »
➐ لہجوں کا اختلاف: جس میں تفخیم، ترقیق، امالہ، قصر، مد، ہمزہ، اظہار اور ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں۔ محقق ابن جزری، امام مالک اور قاضی باقلانی رحمہم اللہ بھی اس سے متفق ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 39-34/9، تحت حدیث: 4992، واصول تفسیر (اردو)، ص: 87-81، مطبوعة دارالسلام]
➋ خطا (غلطی) پر کذب (جھوٹ) کا اطلاق کرنا جائز ہے۔ بعض لوگوں نے مندرجہ بالا حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے اس قسم کی روایات کا انکار کیا ہے کہ اس سے قرآن مجید شکوک و شبہات کا شکار ہوتا ہے، حالانکہ مختلف علاقوں اور قبائل کے لہجے وغیرہ کا اختلاف ایک بدیہی چیز ہے، اس سے اصل کلام میں فرق نہیں پڑتا جس طرح غیر زبانوں میں قرآن مجید کے مختلف تراجم سے قرآن مجید کی بابت کوئی شبہ پیدانہیں ہوتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 937   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.