(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا حضر العشاء واقيمت الصلاة فابدءوا بالعشاء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب شام کا کھانا حاضر ہو، اور نماز (جماعت) کھڑی کر دی گئی ہو، تو پہلے کھانا کھاؤ“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 854
854 ۔ اردو حاشیہ: یہ تب ہے جب کھانے کی شدید حاجت ہو۔ اگر اسی طرح نماز پڑھے تو یکسوئی نہ ہو گی، طبیعت بے چین رہے گی۔ یا پھر کھانا ضائع ہونے کا خدشہ ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ضائع کرنے سے روکا ہے۔ یہ دو باتیں نہ ہوں تو نماز پہلے پڑھنی چاہیے جیسا کہ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گوشت کھا رہے تھے کہ نماز کی اطلاع دی گئی تو آپ نے چھری رکھ دی اور نماز کے لیے چلے گئے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 208]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 854
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 188
´نمازی كو پہلے کھانا تناول کر لینا چاہئے تاکہ نماز کے خشوع میں نقص پیدا نہ ہو` «. . . ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إذا قدم العشاء فابدءوا به قبل ان تصلوا المغرب . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب شام کا کھانا پیش کیا گیا ہو تو مغرب کی نماز ادا کرنے سے پہلے کھانا کھا لو . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب الحث على الخشوع في الصلاة: 188]
� لغوی تشریح: «قُدِّمَ» تقدیم سے مجہول کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں: حاضر کیا گیا، پیش کیا گیا۔ «اَلْعَشَاءُ»”عین“ پر فتحہ اور آخر میں مد کے ساتھ ہے۔ رات کا کھانا۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے اگر کھانا تیار ہو چکا ہو (اور بھوک لگی ہو) تو پہلے کھانا تناول کر لینا چاہئے تاکہ نماز کے خشوع میں نقص پیدا نہ ہو کیونکہ بھوک کی صورت میں دھیان کھانے کی طرف ہی رہے گا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 188
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث933
´جب نماز کی اقامت ہو جائے اور کھانا سامنے ہو تو کیا کرے؟` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب شام کا کھانا سامنے رکھ دیا جائے، اور نماز بھی شروع ہو رہی ہو تو پہلے کھانا کھاؤ۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 933]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جب بھوک لگی ہو اورکھانا تیار ہو تو نمازکے دوران میں توجہ کھانے کیطرف رہے گی۔ اور نماز کما حقہ ادا نہیں ہوسکے گی۔ اس لئے بھوک کی صورت میں پہلے کھانا کھا لینا بہتر ہے۔ تاکہ دلجمعی سے نماز ادا کی جاسکے۔
(2) اگر کھانا تیار ہونے میں دیر ہو تو نماز پڑھ لینی چاہیے۔ کیونکہ اس صورت میں نماز میں تاخیر سے کوئی فائدہ نہیں۔
(3) دین اسلام دین فطرت ہے۔ اس میں جسم اور روح دونوں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے ایک حسین توازن قائم کردیا گیا ہے۔ ہندو جوگیوں یا عیسائی راہبوں کی طرح محض جسم کو تکلیف دینے کو نیکی سمجھ لینا گمراہی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 933
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 353
´شام کا کھانا حاضر ہو اور نماز کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھا لو۔` انس رضی الله عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب شام کا کھانا حاضر ہو، اور نماز کھڑی کر دی جائے ۱؎ تو پہلے کھا لو۔“[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 353]
اردو حاشہ: 1؎: بعض لوگوں نے نماز سے مغرب کی نماز مراد لی ہے او اس میں وارد حکم کو صائم کے لیے خاص مانا ہے، لیکن مناسب یہی ہے کہ اس حکم کی علّت کے پیش نظر اسے عموم پر محمول کیا جائے، خواہ دوپہر کا کھانا ہو یا شام کا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 353
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1215
1215- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب کھانا آ جائے اور نماز کے لیے اقامت کہی جاچکی ہو، تو تم پہلے کھانا کھالو۔“ سفیان کہتے ہیں: میں نے کسی بھی راوی کویہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے نہیں سنا۔ ”جب کھانا آجائے“ یہ الفاظ صرف زہری نے نقل کیے ہیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1215]
فائدہ: جب انسان کو بھوک ہو اور کھانا بھی سامنے ہو تو کھانا کھانا چاہیے، خواہ نماز کی جماعت نکل جائے، اگر انسان کو بھوک ہے اور کھانا بھی موجود ہے تو اس وقت نماز پڑھنا درست نہیں ہے، اس سے انسان کی توجہ کھانے کی طرف رہے گی۔ یاد رہے کہ امام اس سے مستثنٰی ہے، یعنی اگر امام کو بھوک لگی ہو اور کھانا اس کے پاس موجود ہے، اور جماعت کا ٹائم ہو گیا ہے تو وہ کھانا چھوڑ کر جماعت کرائے گا۔ [صحيح البخاري: 675] نیز اگر انسان کو بھوک نہیں ہے اور کھانا آ گیا ہے، ادھر سے جماعت کا وقت ہو گیا ہے، تو پہلے اسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے بعض مدارس میں نماز پر اتنی سختی کی جاتی ہے کہ جو بچہ تکبیر اولٰی سے رہ جائے، اس کا عذر سنے بغیر اس کو سخت سزا دی جاتی ہے، خواہ وہ کسی شرعی عذر کی وجہ سے لیٹ ہوا ہو، یہ رویہ درست نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1213
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 672
672. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کھانا سامنے رکھ دیا جائے تو نماز مغرب سے پہلے کھانا کھا لو اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے عجلت نہ کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:672]
حدیث حاشیہ: ان جملہ آثار اور احادیث کا مقصد اتنا ہی ہے کہ بھوک کے وقت اگر کھانا تیار ہو تو پہلے اس سے فارغ ہونا چاہئے، تاکہ نماز پورے سکون کے ساتھ ادا کی جائے اور دل کھانے میں نہ لگا رہے اور یہ اس کے لیے ہے جسے پہلے ہی سے بھوک ستا رہی ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 672
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:672
672. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کھانا سامنے رکھ دیا جائے تو نماز مغرب سے پہلے کھانا کھا لو اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے عجلت نہ کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:672]
حدیث حاشیہ: (1) نماز مغرب کا ذکر کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باقی نمازوں میں بالاولیٰ کھانے کو نماز پر ترجیح دی جائے گی بشرطیکہ اشتغال قلب کا اندیشہ ہو کیونکہ نماز مغرب کا وقت کم ہوتا ہے، وقت کی کمی کے باوجود اگر کھانے کو نماز پر ترجیح دی جارہی ہے تو جب وقت بھی وسیع ہوتو بالاولیٰ کھانا نماز پر مقدم ہونا چاہیے۔ (حاشیة السندي: 23/1)(2) حدیث میں لفظ عَشَاء ہے جس کے لغوی معنی”رات کا کھانا“ ہیں لیکن مفہوم کے اعتبار سے مطلق کھانا مراد ہے، رات کے وقت کھانے کی تخصیص نہیں، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کرکے اس کی وضاحت کردی ہے بلکہ حضرت ابو درداء ؓ نے اس سے بھی عام معنی مراد لیا ہے کہ کھانے کہ علاوہ کوئی بھی حاجت ہو، پہلے اسے پورا کرنا چاہیے، پھر فارغ البال ہو کر نماز کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ امام طحاوی ؒ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث صائم، یعنی روزے دار کے ساتھ خاص ہے، لیکن اس کی علت کا تقاضا ہے کہ اسے اپنے عموم پر رہنے دیا جائے۔ اگر چہ اس روایت میں صلاۃ مغرب کا ذکر ہے لیکن یہ حصر کے لیے نہیں ہے، کیونکہ بھوک روزے دار کے علاوہ دوسرے کو بھی پریشان کرسکتی ہے، بہرحال وقت اور کھانے کی کوئی قید نہیں۔ جب بھی کوئی چیز نمازی کے لیے پریشانی کا باعث ہو پہلے اسے دور کردیا جائے، پھر فراغت کے بعد نماز پڑھی جائے۔ (فتح الباري: 208/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 672