رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان نماز کی صف میں بیٹھے ہوئے تھے، آگے راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
وضاحت: ۱؎: یہ «مسئی صلاۃ»”جلدی جلدی صلاۃ پڑھنے والے شخص“ والی حدیث ہے جسے مصنف نے درج ذیل تین ابواب: باب «الرخصۃ فی ترک الذکر فی الرکوع، باب الرخصۃ فی الذکر فی السجوداورباب أقل ما یجزی بہ الصلاۃ» میں ذکر کیا ہے، لیکن ان تینوں جگہوں پر کسی میں بھی اقامت کا ذکر نہیں ہے، البتہ ابوداؤد اور ترمذی نے اس حدیث کی روایت کی ہے اس میں «فتوضأ کما امرک اللہ ثم تشہد فأقم» کے الفاظ وارد ہیں جس سے حدیث اور باب میں مناسبت ظاہر ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 668
668 ۔ اردو حاشیہ: امام صاحب نے تفصیلی روایت ذکر نہیں کی۔ یہ مسییٔ الصلاۃ کی حدیث کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن اس سے استدلال واضح نہیں ہوتا۔ جبکہ سنن ابوداؤد کے ایک طریق میں اقامت کی تصریح موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فأقِمْ ثمَّ كبِّرْ……»”اقامت کہہ، پھر اس کے بعد تکبیر (تحریمہ) کہہ……“ دیکھیے: [صحيح سنن أبى داود مفصل للألباني، رقم: 807] نیز [السنن الكبري للنسائي: 507/1] میں نفس اسی عنوان کے تحت مذکور حدیث میں اقامت کا ذکر موجود ہے۔ اس طرح حدیث سے امام صاحب رحمہ اللہ کا استدلال واضح ہے کہ اکیلا شخص بھی اقامت کہہ سکتا ہے اگرچہ اس کے ساتھ کوئی اور نماز پڑھنے والا نہ ہو کیونکہ اس صورت میں اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بے شمار لشکر نماز ادا کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے: «فإن أقامَ صلّى معَهُ ملَكاهُ، وإن أذَّنَ وأقامَ صلّى خلفَهُ مِن جنودِ اللَّهِ ما لا يرى طرفاهُ»”اگر (صرف) اقامت کہتا ہے تو اس کے ساتھ، اس کے ساتھ والے دونوں فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور اگر اذان اور اقامت کہتا ہے تو اس کے پیچھے اس قدر اللہ کے لشکر نماز پڑھتے ہیں کہ ان کی دونوں اطراف نہیں دیکھی جا سکتیں (کیونکہ صفیں بہت ذراز ہوتی ہیں)۔“ دیکھیے: [صحیح الترغیب و الترھیب للألباني: 295/1] معلوم ہوا اکیلا آدمی اذان بھی دے سکتا ہے اور اقامت بھی کہہ سکتا ہے، بالخصوص جب کہ وہ آبادی سے باہر ہو۔ بہرحال اکیلے آدمی کا اقامت کہنا بے فائدہ نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 668