محمود بن لبید اپنی قوم کے کچھ انصاری لوگوں سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جتنا تم فجر اجالے میں پڑھو گے، اتنا ہی ثواب زیادہ ہو گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: علماء نے اسفار کی تاویل یہ کی ہے کہ فجر واضح ہو جائے، اس کے طلوع میں کوئی شک نہ ہو، اور ایک تاویل یہ بھی ہے کہ اس حدیث میں صلاۃ سے نکلنے کے وقت کا بیان ہے نہ کہ صلاۃ میں داخل ہونے کا اس تاویل کی رو سے فجر غلس میں شروع کرنا، اور اسفار میں ختم کرنا افضل ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 550
550 ۔ اردو حاشیہ: ➊”روشن کرو“ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ دیر کر کے پڑھو۔ یہ اگرچہ جائز ہے مگر افضل نہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اندھیرے میں نماز پڑھنے کا تھا جیسے کہ اوپر بیان ہوا، اس لیے اس روایت کے کچھ اور مفہوم بھی بیان کیے گئے ہیں، مثلاً: نماز اندھیرے میں شروع کر کے لمبی قرأت کی جائے حتیٰ کہ روشنی ہو جائے۔ دوسری روایت کے ترجمے میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے اور یہ آپ کے عمل کے مطابق بھی ہے۔ یا روشنی سے مراد افق (آسمان کے کنارے) پر روشنی ہے نہ کہ زمین پر، یعنی نماز اس وقت پڑھی جائے جب مشرقی افق روشن ہو جائے، البتہ زمین پر اندھیرا ہی ہو گا۔ یہ مفہوم بھی آپ کے طرزعمل سے مطابقت رکھتا ہے۔ یا یہ حکم ان مساجد کے لیے ہے جن میں بڑا مجمع ہوتا ہے، ہر قسم کے نمازی ہوتے ہیں اور وہ جلدی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ یا تاکہ لوگ آسانی سے جماعت کے ساتھ مل جائیں، جتنے مقتدی زیادہ ہوں گے، اتنا ہی ثواب زیادہ ہو گا۔ واللہ اعلم۔ ➋دوسری روایت کا مطلب یہ ہے کہ نماز اندھیرے میں شروع ہو جائے، پھر پڑھتے پڑھتے روشنی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ یہ تو زیادہ ثواب والی بات ہے، مگر بعد میں کم از کم اتنا وقت سورج طلوع ہونے تک ضرور ہونا چاہیے کہ اگر ضرورت پڑے تو نیاوضو کر کے مسنون طریقے سے دوبار ہ نماز باجماعت دہرائی جا سکے۔ مزید تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائی ملاحظہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 550