(مرفوع) اخبرنا هلال بن العلاء، قال: حدثنا سعيد بن سليمان، قال: حدثنا عباد، عن الجريري، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يتعوذ من عين الجان، وعين الإنس، فلما نزلت المعوذتان اخذ بهما وترك ما سوى ذلك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَتَعَوَّذُ مِنْ عَيْنِ الْجَانِّ، وَعَيْنِ الْإِنْسِ، فَلَمَّا نَزَلَتِ الْمُعَوِّذَتَانِ أَخَذَ بِهِمَا وَتَرَكَ مَا سِوَى ذَلِكَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کی نظر بد اور انسانوں کی نظر بد سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے، پھر جب معوذتین اتری تو آپ نے ان کو پڑھنا شروع کیا اور باقی سب چھوڑ دیا۔
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ترمذي (2058) ابن ماجه (3511) سعيد الجريري اختلط ولم أجد بأنه حدث به قبل اختلاطه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 364
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5496
اردو حاشہ: (1)یہ حدیث مبارکہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ جن ‘انسانوں کو ایذا دینے اور تکلیف پہنچانے کے لیے ان پر غلبہ و تسلط حاصل کر سکتے ہیں ‘لہذا انسانوں کو چاہیے کہ اپنے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجائیں کےتے رہا کریں تا کہ وہ خبیث و شریر جنوں کی شرارتوں سے محفوظ رہیں۔(2)اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نظربد‘برحق ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی انسان ہی کی نظر لگے بلکہ جنات کی نظر بھی لگ سکتی ہے۔(3)معوذتین میں ہر قسم کے شر سے پناہ موجود ہے ‘لہذا یہ جامع ہیں۔ان کی موجودگی میں دوسری معوذات کی ضرورت نہیں اگرچہ ان کے پڑھنے کی ممانعت بھی نہیں ہے۔(4)نظر بد کا اثر صرف انسان پر نہیں بلکہ بسا اوقات جمادات پر بھی اس کا ایسا شدید اثر ہوتا ہے جو دواؤںوغیرہ سے ختم نہیں ہوتابلکہ معوذات کی ضرورت پڑتی ہے۔اس اثر کی عقلی تو جیہ نہ بھی ہو سکے تو اس کا انکار ممکن نہیں۔اس دنیا میں سب کچھ عقل کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ بہت سے مسائل میں انسان کی عقل دھنگ رہ جاتی ہے‘علوم جواب دے جاتے ہیں۔مقناطیس کے ایک سرے کا شمال کی جانب ہی رہنابھی اس کی ایک مثال ہے۔مگر اس کا انکار ممکن نہیں۔(5) راجح قول کے مطابق یہ روایت صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:(سنن ابن ماجہ مترجم (دارالسلام)‘حدیث:3511)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5496