(مرفوع) اخبرني محمد بن عثمان بن ابي صفوان، قال: حدثني سلمة بن سعيد بن عطية وكان خير اهل زمانه , قال: حدثنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة , قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اكثر ما يتعوذ من المغرم والماثم، قلت: يا رسول الله ما , اكثر ما تتعوذ من المغرم، قال:" إنه من غرم حدث فكذب، ووعد فاخلف". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي صَفْوَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَطِيَّةَ وَكَانَ خَيْرَ أَهْلِ زَمَانِهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مَا يَتَعَوَّذُ مِنَ الْمَغْرَمِ وَالْمَأْثَمِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا , أَكْثَرَ مَا تَتَعَوَّذُ مِنَ الْمَغْرَمِ، قَالَ:" إِنَّهُ مَنْ غَرِمَ حَدَّثَ فَكَذَبَ، وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرض اور معصیت (گناہ) سے پناہ مانگتے تھے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ قرض سے بہت پناہ مانگتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”جو قرض دار ہو گا وہ بولے گا تو جھوٹ بولے گا اور وعدہ کرے گا تو وعدہ خلافی کرے گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس لیے آدمی قرض لینے سے طاقت بھر بچے، ایسی نوبت ہی نہ آنے دے کہ قرض لینے کے لیے مجبور ہو، طاقت و قناعت سے کام لے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5456
اردو حاشہ: ”خلاف ورزی کرتا ہے“ کیونکہ یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے اس کے پاس ادائیگی کے لیے کچھ نہیں ہوتا مگر جان چھڑانے کے لیے اسے جان بوجھ کر جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور ممکن وعدہ کرنا پڑتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں قرض سے مطلق یا معمولی قرض مراد نہیں بلکہ وہ بھاری قرض ہے جس کی ادائیگی اس کے لیے نا ممکن بن جائے۔ اس روایت میں گناہ سے مراد بھی وہ گناہ ہے جو انسان جان بوجھ کر دھڑلے سے کرے‘ یا اس سے مراد وہ گناہ ہے جو قرض کے نتیجے میں مقروض کو کرنا پڑتا ہے جیسا کہ ابھی گزرا۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5456
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5474
´قرض سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرض اور معصیت (گناہ) سے کثرت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ قرض اور معصیت (گناہ) سے کثرت سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”آدمی جب مقروض ہوتا ہے تو جب باتیں کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے، اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5474]
اردو حاشہ: دیکھیے، روایت: 5456۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5474
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2397
2397. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ دوران نماز میں دعا کیا کرتے تھے۔ ”اے اللہ!میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ کسی کہنے والے نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ قرض سے بکثرت پناہ کیوں مانگتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی جب مقروض ہوتا ہے تو بات بات پر جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2397]
حدیث حاشیہ: (1) تاوان میں پڑنے کی کئی صورتیں ہیں: مثلاً: مقروض ہو گیا، محتاج ہو گیا یا کسی مالی مشکل میں پھنس گیا۔ جب آدمی اس طرح کی صورتِ حال سے دوچار ہو جائے تو قرض خواہ سے کہتا ہے آپ فکر نہ کریں، انتظام ہو گیا ہے، اتنے دنوں تک آپ کی رقم ادا کر دی جائے گی، لیکن اسے پورا نہیں کر پاتا بلکہ وعدہ خلافی اس کا معمول بن جاتی ہے، ایسے انسان کی امانت و دیانت اور صداقت وغیرہ مجروح ہو جاتی ہے۔ (2) حضرت مہلب فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان ذرائع سے بھی پناہ مانگنی چاہیے جو انسان کے لیے گناہ اور وعدہ خلافی کا باعث بنیں۔ نبی ﷺ نے قرض سے اس لیے پناہ مانگی ہے کہ یہ جھوٹ اور وعدہ خلافی کا ذریعہ ہے، دوسرا اس سے ذلت و رسوائی اور قرض خواہ کی طرف سے ڈانٹ ڈپٹ ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 77/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2397