(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، عن عبد الرحمن، عن سليمان بن المغيرة، عن حميد بن هلال، قال: قال ابو رفاعة: انتهيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب، فقلت: يا رسول الله , رجل غريب جاء يسال عن دينه لا يدري ما دينه؟ ,فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وترك خطبته حتى انتهى إلي , فاتي بكرسي خلت قوائمه حديدا , فقعد عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم , فجعل يعلمني مما علمه الله، ثم اتى خطبته فاتمها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو رِفَاعَةَ: انْتَهَيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , رَجُلٌ غَرِيبٌ جَاءَ يَسْأَلُ عَنْ دِينِهِ لَا يَدْرِي مَا دِينُهُ؟ ,فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكَ خُطْبَتَهُ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ , فَأُتِيَ بِكُرْسِيٍّ خِلْتُ قَوَائِمَهُ حَدِيدًا , فَقَعَدَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَعَلَ يُعَلِّمُنِي مِمَّا عَلَّمَهُ اللَّهُ، ثُمَّ أَتَى خُطْبَتَهُ فَأَتَمَّهَا".
ابورفاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ خطبہ دے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک اجنبی شخص اپنے دین کے بارے میں معلومات کرنے آیا ہے، اسے نہیں معلوم کہ اس کا دین کیا ہے؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے اور خطبہ روک دیا یہاں تک کہ آپ مجھ تک پہنچ گئے، پھر ایک کرسی لائی گئی، میرا خیال ہے اس کے پائے لوہے کے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھے اور مجھے سکھانے لگے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھایا تھا، پھر آپ لوٹ کر آئے اور اپنا خطبہ مکمل کیا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5379
اردو حاشہ: (1) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی تواضع عالی ظرفی اور اہل اسلام کے ساتھ آپ کی بے پناہ محبت و شفقت کی دلیل ہے، نیز اس سے یہ معلوم ہوا کہ اہل علم کو سائلین اور طلبہ علم کے ساتھ انتہائی نرمی اور شفقت کا رویہ اپنانا چاہیے۔ علم کے پیاسوں کی علمی پیاس بجھانی چاہیے اور فتویٰ طلب کرنے والوں کو کتاب و سنت کے مطابق صحیح اور درست فتویٰ دے کر ان کی کما حقہ دینی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خطبہ مبارک ادھورا چھوڑ کر سائل کی علمی پیاس اور تشنگی بجھائی، اسے قرآن و حدیث کا علم سکھایا اور بعد ازاں اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔ فِدَاه أبي و نفسي و روحي۔ (2) باب كا مقصود یہ ہے کہ کرسی پر بیٹھنا جب کہ دیگر لوگ نیچے بیٹھے ہوں، منع نہیں، اگر اس کی ضرورت ہو، مثلاً: خطاب کرنا تا کہ سب لوگ سننے کے ساتھ ساتھ آسانی سے دیکھ بھی سکیں، ویسے بھی کرسی پر بیٹھنا تکبر کو مستلزم نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5379