عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ چہرہ کے روئیں اکھاڑنے والی اور دانتوں کو کشادہ کرنے والی عورتوں پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے، کیا میں اس پر لعنت نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 876
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر میں بال جوڑنے اور جڑوانے والی اور جسم پر گود کر نشان بنانے والی اور بنوانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 876»
تخریج: «أخرجه البخاري، اللباس، باب الموصولة، حديث:5940، ومسلم، اللباس والزينة، باب تحريم فعل الواصلة والمستوصلة، حديث:2124.»
تشریح: یہ حدیث دلیل ہے کہ یہ امور حرام ہیں۔ رہا یہ کہ عورت اپنے بالوں کے ساتھ حیوانی بال (اون)‘ دھاگہ اور کپڑے کے ٹکڑے (بطور پراندہ) باندھ سکتی ہے یا نہیں تو محققین نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ خصوصاً جب ان چیزوں کا رنگ بالوں کے رنگ سے ملتا ہی نہ ہو‘ تب تو ان کے جواز کے بارے میں کسی کو اختلاف ہی نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 876
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5098
´بال جوڑوانے والی عورت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بال جوڑنے والی اور جوڑوانے والی، گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) ولید بن ہشام نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے، (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5098]
اردو حاشہ: ولید بن ابو ہشام نے عبیداللہ بن عمر کی مخالفت کی ہے کیونکہ اس (عبید اللہ) نے یہ روایت حضرت نافع رحمہ اللہ سے موصول بیان کی ہے او ر وہ اس طرح کہ عبیداللہ نے نافع سے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جعلی بال ملانے والی، ملوانے والی جسم گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت کی ہے۔ یہی مذکورہ حدیث عبیداللہ کی سند والی ہے جبکہ اگلی روایت: 5099 جوکہ مرسل بیان کی گئی ہےاس میں ولید بن ابوہشام نے نافع سے بیان کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے...... الخ. اصل بات یہ ہے کہ عبیداللہ، نافع سے بیان کرنے میں دیگر رواۃ سے مقدم ہے۔ چونکہ عبیداللہ نے نافع سے موصول بیان کی ہے، لہذا یہ روایت محفوظ ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5098
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5252
´بال جوڑنے اور جوڑوانے والی عورت پر وارد لعنت کا بیان۔` اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میری ایک بیٹی نئی نویلی دلہن ہے، اسے ایک بیماری ہو گئی ہے کہ اس کے بال جھڑ رہے ہیں اگر میں اس کے بال جوڑوا دوں تو کیا مجھ پر گناہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”بال جوڑنے اور جوڑوانے والی عورتوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5252]
اردو حاشہ: معلوم ہوا گنجی عورت بھی بال نہیں لگا سکتی کیونکہ اس میں بھی دھوکا دہی پائی جاتی ہے نیز غیر ضروری تکلیف پایا جاتا ہے کیونکہ کم بالوں کے ساتھ بھی گزارا ہو سکتا ہے لیکن مصنوعی دانت اعضاء اور لینز وغیرہ لگوائے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5252
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4168
´دوسرے کے بال اپنے بال میں جوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اس عورت پر جو دوسری عورت کے بال میں بال کو جوڑے، اور اس عورت پر اپنے بالوں میں اور بال جڑوائے، اور اس عورت پر دوسری عورت کا بدن گودے، اور نیل بھرے، اور اس عورت پر جو اپنا بدن گودوائے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4168]
فوائد ومسائل: جن گناہوں پر لعنت کی وعید سنائی گئی ہو وہ کبیرہ گناہ کہلاتے ہیں، ایسے گناہ خاص توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے توبہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ انسان ان سے باز رہنے کا عزم بھی کرے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4168
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1987
´بالوں کو جوڑنے اور گودنا گودنے والی عورتوں پر وارد وعید کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کو جوڑنے اور جڑوانے والی، گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1987]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) عورت کے لیے مستحسن ہے کہ اپنے خاوند کی خوشی کے لیے زیب و زینت کرے لیکن جائز اور نا جائز کا خیال رکھناضروری ہے۔
(2) عورت کے بال کم ہوں تو یہ جائز نہیں کہ بال زیاہ ظاہر کرنے کے لیے اپنے بالوں کو دوسرے بالوں میں ملائے۔ مردوں کوبھی سر کا گنج چھپانے کے لیے وگ لگانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے سر پر ٹوپی یا پگڑی وغیرہ استعمال کرنی چاہیے (3) جس طرح عورت کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بالوں میں دوسرے بال لگائے، اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ کسی دوسری عورت کا عیب چھپانے کے لیے اس کے بالوں میں دوسرے بال ملائے۔
(4) آرائش کا پیشہ اختیار کرنے والے مردوں او رعورتوں کو چاہیے کہ ایسے کاموں سے پرہیز کریں جو شرعاً ممنوع ہیں: مثلا: مرد کسی کی ڈاڑھی نہ مونڈے۔ عورت دوسری عورت کا میک اپ کرنےمیں ممنوع کاموں سے اجتناب کرتے ہوئے صرف جائز کاموں پر اکتفا کرے۔
(5) گودنے کا مطلب سوئی سے جسم پر کوئی نشان بناکر اس میں کوئی رنگ دار چیز بھرنا ہے۔ جس کی وجہ سے جسم پر وہ نشان پختہ ہو جاتا ہے اور مٹتا نہیں۔ عرب میں عورتوں میں یہ رواج تھا۔ یہ کام کرنا اور کروانا شرعا ممنوع ہے
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1987
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1759
´بالوں میں جوڑے لگانے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے بال میں جوڑے لگانے والی، بال میں جوڑے لگوانے والی، گدنا گوندنے والی اور گدنا گوندوانے والی پر لعنت بھیجی ہے۔“ نافع کہتے ہیں: گدنا مسوڑے میں ہوتا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1759]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ غالب احوال کے تحت ہے ورنہ جسم کے دوسرے حصوں پربھی گدنا گوندنے کا عمل ہوتاہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1759
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2783
´بال جوڑنے اور جڑوانے والی اور گودنا گودنے اور گودوانے والی پر وارد لعنت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی لعنت ہو بالوں کو جوڑنے والی اور جوڑوانے والی پر اور گودنا گودنے اور گودنا گودوانے والی پر“، نافع کہتے ہیں: گودائی مسوڑھے میں ہوتی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2783]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: گودائی ہاتھ، پاؤں اور جسم کے مختلف حصوں پر ہوتی ہے، ممکن ہے نافع نے اپنے زمانہ کے رواج کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی ہو کہ گودائی مسوڑھے میں ہوتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2783
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:117
117- مسلم بن صبیح بیان کرتے ہیں: ہم لوگ یسار بن نمیر کے گھر میں مسروق کے ساتھ تھے۔ مسروق نے ان کے گھر میں تصویریں لگی ہوئی دیکھیں، تو یہ بات بیان کی، میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”قیامت کے دن سب سے شید عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:117]
فائدہ: اس حدیث میں تصاویر کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اس سے ہر صورت بچنا چاہیے اور یہ تقویٰ میں سے ہے۔ افسوس کہ تصویر بنانا اور بنوانا لوگوں نے اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا رکھا ہے۔ صرف اس کی اتنی گنجائش ہے کہ جہاں اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، مثلاً شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کے لیے۔ تصویر سے مراد ہر طرح کی تصویر ہے، خواہ وہ کیمرے سے ہو یا ہاتھ سے بنی ہوئی ہو، ”مـا يـطـلـق عليه اسم الـتـصـويـر فـهـو تصویر“ جس چیز پر تصویر کا اطلاق کیا جا تا ہے، پس وہ تصویر ہے۔ کسی حرام چیز کومختلف حیلوں کے ذریعے جائز قرار دینا جائز نہیں ہے، اس کو واجب قرار دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ اس موقع پر بطور نصیحت مختلف مسالک کے علمائے کرام کی عبارتیں پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ تصویر کے متعلق صحیح نقطۂ نظر واضح ہو سکے۔ اس سلسلے میں جو مؤقف ہمیں درست لگتا وہ ہم نے ماقبل بیان کر دیا ہے اب اس کی تائید میں اہل الحدیث علمائےکرام کے فتاویٰ جات بھی بیان کیے جاتے ہیں۔ اہل حدیث علماء ? نماز وغیرہ سیکھنے سکھانے کے لیے فوٹو لے کر رسالہ شائع کرنے کی اجازت پوچھنے پر مشہور اہل حدیث عالم فقیہ العصر محدث عبداللہ روپڑی نے لکھا: ”تصویر کا بنانا تو کسی صورت درست نہیں اور (پہلے سے) بنی ہوئی کا استعمال دو شرطوں سے درست ہے ایک یہ کہ مستقل نہ ہو، کپڑے وغیرہ میں نقش ہو۔ دوم نیچے رہے بلند نہ لٹکائی جائے۔“(فتاوی اہلحدیث، ج 3 ص 345) ? جماعت اہل حدیث کے محدث العصر شیخ محب اللہ شاہ راشدی فرماتے ہیں: ”آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاندار کی تصویر بنانے سے منع فرمایا ہے اور جو ایسا کرتا ہے اس پر لعنت فرمائی ہے اور ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ تصویر بنانے والے اللہ کی مخلوق میں سے بدترین لوگ ہیں۔۔۔۔۔۔ اور یہ عمل کبیرہ تباہ کر نے والا گناہ ہے اگر چہ یہ آج پورے عالم اسلام میں بھی پھیلا ہوا ہے۔“(فتاوی را شدیہ ص 495، نعمانی کتب خانہ لاہور) ? مشہور اہل حدیث مفتی مبشر أحمد ربانی لکھتے ہیں: ”یہ بات درست ہے کہ شریعت اسلامیہ نے جاندار اشیاء کی تصاویر کو حرام قرار دیا ہے۔ تصاویر کو مٹانے کے حکم کے ساتھ جاندار اشیاء کی تصاویر بنانے والے پر لعنت کی گئی ہے اور قیامت کے دن کے سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔۔۔۔۔“(احکام و مسائل، ص 625، دارالاندلس لا ہور) ? سوال کیا جا تا ہے کہ: ”تصویر کے بارے میں شریعت نے سختی سے روکا ہے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس جدید دور میں جو تصویر کیمرہ کے ساتھ لی جاتی ہے وہ اس ضمن میں نہیں آتی بلکہ یہ ممانعت ان تصاویر کے بارہ میں ہے جو ہاتھ سے بنائی جاتی ہیں اور کیمرہ کی تصویر تو ایک عکس ہے۔ لہٰذا یہ جائز ہے؟“ اس کے جواب میں جماعت اہل حدیث کے نامور شیخ الحدیث ومفتی حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب فرماتے ہیں: ”اسلام میں بلا استثناء ہر ذی روح کی تصویر حرام ہے۔ چاہے جتنی بھی صورت میں تصویر کشی کی جائے۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ سائے دار یا غیر سائے دار ہر طرح کی تصویر حرام ہے۔ کیمرہ سے بنی ہو یا غیر کیمرہ سے۔ (فتاوی ثنائیہ مدنیہ، ج 1 ص 533، دارالارشاد لا ہور) ? نامور اہل حدیث عالم ومفتی حافظ عبدالمنان نور پوری فرماتے ہیں: ”ٹی وی، وی سی آر اور فلموں کا کاروبار شرعاً درست نہیں کیونکہ ان میں جاندار کی تصویر بنتی ہے اور تصویر کے متعلق رسول اللہ سلیم کی احادیث بالکل واضح ہیں کہ تصویروں والے روز قیامت عذاب دیے جائیں گے۔“(احکام ومسائل، ج 1 ص 377، المكتبة الکریمیہ لاہور) مز ید ا یک جگہ حافظ نور پوری لکھتے ہیں: ”ہر ذی روح کی تصویر خواہ ہاتھ سے بنائی گئی ہو خواہ کیمرہ سے ممنوع تصویر میں شامل ہے۔“(احکام ومسائل، ج 2 ص 771) ? جماعت اہل حدیث کے معتبر مفتی شیخ عبدالستارالحماد لکھتے ہیں: ”شریعت میں تصویر کشی حرام ہے، اس بناء پر فوٹو گرافی کا پیشہ اختیار کرنا بھی حرام ہے، حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے سنگین عذاب تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔“(فتاویٰ اصحاب الحدیث، ج 3 ص 470، مکتبہ اسلامیہ لاہور) مزید ایک جگہ لکھتے ہیں: ”آج امت مسلمہ جن فتنوں میں بڑی شدت سے بنتا ہے، ان میں ایک فتنہ تصویر بھی ہے حالانکہ دین اسلام میں تصویر کشی کی بہت حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ صورت مسئولہ میں سیاسی راہنماؤں کی قد آور تصاویر آویزاں کرنا انتہائی گھناؤنا فعل ہے، علماء حضرات بھی اس فتنہ میں پوری طرح ملوث ہیں، اضطراری و مجبوری کی بات زیر بحث نہیں کیونکہ بوقت ضروت تو خنزیر اور مردار بھی کھایا جا سکتا ہے، اگر چہ اس کی بھی حدود و قیود ہیں، تاہم پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور کرنسی نوٹوں کی آڑ میں شوقیہ تصاویر کو جائز قرارنہیں دیا جا سکتا۔ (فتاوی اصحاب الحدیث، ج 1 ص 450) سعودی علماء : ? سعودی عرب میں شیخ عبدالعزیز بن باز، شیخ محمد بن صالح عثیمین اور شیخ عبداللہ الجبرین جیسے کبار علماء پر مشتمل و زیرنگرانی کام کرنے والی فتوی کمیٹی ”الـلـجـنة الدائمة للافتاء والارشاد“ نے لکھا: ”ہر جاندار کی تصویر حرام ہے خواہ و انسان ہو یا حیوان اور تصویر خواہ برش سے بنائی جائے یا بن کر یا رنگ سے یا کیمرہ سے یا کسی اور چیز سے اور خواہ وہ مجسم ہو یا غیر مجسم۔ تصویر ہر طرح حرام ہے، کیونکہ تصویر کی حرمت پر دلالت کر نے والی احادیث کے عموم سے یہی ثابت ہے۔ (فتاوی اسلامیہ، ج 4 ص 384، دارالسلام ریاض) ? یہ فتوی کمیٹی مزید ایک جگہ لکھتی ہے: ”جس طرح دلائل تصویر میں بنانے والوں پر لعنت اور آخرت میں ان کے لیے جہنم کی وعید کے بارے میں ہیں، اسی طرح یہ تمام دلائل اس شخص کے لیے بھی ہیں جو اپنے آپ کو تصویر بنوانے کے لیے پیش کرے۔ (فتاویٰ اسلامی، ج 4 ص 384)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 117
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5937
5937. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مصنوعی بال جوڑنے والی اور جڑوانے والی نیز سرمہ بھرنے والی اور بھروانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔“ حضرت نافع نے کہا: کبھی سرمہ مسوڑھے میں بھی بھرا جاتا ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:5937]
حدیث حاشیہ: (1) شیطانی حربوں میں سے ایک حربہ یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خلقت کو مسخ کریں۔ اپنے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگانا یا مصنوعی بالوں کی وگ استعمال کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلنا ہے، اس لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل پر لعنت فرمائی ہے۔ (2) اگر کسی طریقۂ علاج سے نئے بال اگائے جائیں تو ایسا کرنا جائز ہے جیسا کہ بنی اسرائیل کے ایک گنجے آدمی کے سر پر فرشتے نے ہاتھ پھیرا تھا تو بہترین بال اگ آئے تھے۔ (صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، حدیث: 3464) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نئے بال اگ آئیں یا اگا لیے جائیں تو ممنوع نہیں۔ واللہ اعلم w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5937