جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئے، آپ نے ایک شخص کو دیکھا، اس کے سر کے بال الجھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: ”کیا اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس سے اپنے بال ٹھیک رکھ سکے؟“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5238
اردو حاشہ: 1۔ مقصد یہ ہے کہ جب کوئی شخص لمبے بال اور زلفیں رکھے تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے، یعنی انہیں سنوار کر رکھے، تیل لگائے اور کنگھی کرے، نیز انہیں پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: [مَن كان له شَعَرٌ، فَلْيُكرِمْهُ]”جس شخص نے بال رکھے ہوں تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے، یعنی انہیں بنا سنوار کر رکھے۔“(سنن أبي داؤد، الترجل، باب فی اصلاح الشعر، حدیث: 4163، وقال الألباني حسن صحیح) بالوں کی عزت یعنی انہیں سنوارنے کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ ایک شیشہ اور کنگھی ہمیشہ جیب کی زینت بنی رہے۔ اس حوالے سے کچھ روایات بھی منقول ہیں لیکن وہ درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ ہاں بوقت ضرورت ان کا خیال کیا جائے، اور اس کی حد ایک دن چھوڑ کر کنگھی کرنا ہے بلا ناغہ ٹیپ ٹاپ کی ممانعت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: [أن رسولُ اللهِ ﷺ نهى عن الترجُّلِ إلّا غِبًّا](سنن أبي داؤد، الترجل، باب النهى عن كثير من الإرفاء، حدیث: 4159)”رسول اکرم ﷺ نے ہمیں روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا۔“ (2) میلا کچیلا رہنا اور بالوں کو نہ سنوارنا زہد ہے نہ سادگی بلکہ یہ حماقت اور جہالت ہے، جو کسی بھی طرح ایک باوقار اور قابل احترام مسلمان کے لائق نہیں۔ اسلام انتہائی صاف ستھرا اور پاکیزہ دین ہے اور اپنے پیروکاروں سے بھی پاکیزگی اور صاف ستھرائی کا تقاضا کرتا ہے۔ مزید برآں رسول کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے: [إنَّ اللهَ جميلٌ يُحِبُّ الجمالَ]”بلاشبہ اللہ تعالیٰ حسین و جمیل ہے اور حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے۔“(مسند أحمد: 4/ 133،134)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5238