(مرفوع) اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا سعيد بن عامر، قال: حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن نصر بن عبد الرحمن، عن جده معاذ، انه طاف مع معاذ ابن عفراء فلم يصل، فقلت: الا تصلي؟ فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا صلاة بعد العصر حتى تغيب الشمس، ولا بعد الصبح حتى تطلع الشمس". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قال: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَدِّهِ مُعَاذٍ، أَنَّهُ طَافَ مَعَ مُعَاذِ ابْنِ عَفْرَاءَ فَلَمْ يُصَلِّ، فَقُلْتُ: أَلَا تُصَلِّي؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ، وَلَا بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا، تو انہوں نے نماز (طواف کی دو رکعت) نہیں پڑھی، تو میں نے پوچھا: کیا آپ نماز نہیں پڑھیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”عصر کے بعد کوئی نماز نہیں ۱؎ یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، اور فجر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک سورج نکل آئے“۔
وضاحت: ۱؎: یہاں نفی نہی کے معنی میں ہے جیسے «لارفث ولا فسوق» میں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائی (تحفة الأشراف: 11374)، مسند احمد 4/219، 220 (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ’’نصر بن عبدالرحمن کنانی‘‘ لین الحدیث ہیں، لیکن معنی دوسری روایات سے ثابت ہے، دیکھئے حدیث رقم 562، 569)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، نصر مجهول (التحرير:7117). وفيه علة أخري،انظر الإصابة (3/ 428 ت 8039) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 324
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 519
519 ۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت ضعیف الاسناد ہے، تاہم نماز عصر اور نمازفجر کے بعد طواف کرنے کی صورت میں طواف کے بعد دورکعت پڑھنا جائز ہے جیسا کہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی عبدمناف! کوئی شخص رات یا دن جس وقت بھی اس گھر کا طواف کرنا اور نماز پڑھنا چاہے، تم اسے منع نہ کرنا۔“[سنن أبي داود، المناسک، حدیث: 1894] بنابریں اس فرمان نبوی سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ میں عصر کے بعد اور اسی طرح فجر کے بعد طواف جائز ہے، چنانچہ اس کے بعد ان ممنوعہ اوقات میں طواف کی دو رکعتیں بھی جائز ہوں گی، البتہ عصر اور فجر کے بعد مطلق نفل نماز پڑھنے کی ممانعت دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 586، وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 827] مگر فرض یا فوت شدہ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ ظہر رہتی ہو تو عصر کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ صبح کی سنتیں رہتی ہوں تو فجر کی نماز کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہیں، اسی طرح تحیۃ المسجد کی دورکعتیں بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ اس مسئلے کی وضاحت کے لیے دیکھیے، حدیث: 586 اور اس کا فائدہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 519