(مرفوع) اخبرنا الحسين بن حريث، قال: انبانا الفضل بن موسى، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا جبريل عليه السلام جاءكم يعلمكم دينكم، فصلى الصبح حين طلع الفجر وصلى الظهر حين زاغت الشمس، ثم صلى العصر حين راى الظل مثله، ثم صلى المغرب حين غربت الشمس وحل فطر الصائم، ثم صلى العشاء حين ذهب شفق الليل، ثم جاءه الغد فصلى به الصبح حين اسفر قليلا، ثم صلى به الظهر حين كان الظل مثله، ثم صلى العصر حين كان الظل مثليه، ثم صلى المغرب بوقت واحد حين غربت الشمس وحل فطر الصائم، ثم صلى العشاء حين ذهب ساعة من الليل، ثم قال: الصلاة ما بين صلاتك امس وصلاتك اليوم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قال: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ، فَصَلَّى الصُّبْحَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ وَصَلَّى الظُّهْرَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ رَأَى الظِّلَّ مِثْلَهُ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَحَلَّ فِطْرُ الصَّائِمِ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ حِينَ ذَهَبَ شَفَقُ اللَّيْلِ، ثُمَّ جَاءَهُ الْغَدَ فَصَلَّى بِهِ الصُّبْحَ حِينَ أَسْفَرَ قَلِيلًا، ثُمَّ صَلَّى بِهِ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ الظِّلُّ مِثْلَهُ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ الظِّلُّ مِثْلَيْهِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ بِوَقْتٍ وَاحِدٍ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَحَلَّ فِطْرُ الصَّائِمِ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ حِينَ ذَهَبَ سَاعَةٌ مِنَ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ: الصَّلَاةُ مَا بَيْنَ صَلَاتِكَ أَمْسِ وَصَلَاتِكَ الْيَوْمَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جبرائیل علیہ السلام ہیں، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے ہیں، تو انہوں نے نماز فجر اس وقت پڑھائی جب فجر طلوع ہوئی، اور ظہر اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا، پھر عصر اس وقت پڑھائی جب انہوں نے سایہ کو اپنے مثل دیکھ لیا، پھر مغرب اس وقت پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، اور روزے دار کے لیے افطار جائز ہو گیا، پھر عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق یعنی رات کی سرخی ختم ہو گئی، پھر وہ آپ کے پاس دوسرے دن آئے، اور آپ کو فجر اس وقت پڑھائی جب تھوڑی روشنی ہو گئی، پھر ظہر اس وقت پڑھائی جب سایہ ایک مثل ہو گیا، پھر عصر اس وقت پڑھائی جب سایہ دو مثل ہو گیا، پھر مغرب (دونوں دن) ایک ہی وقت پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، اور روزے دار کے لیے افطار جائز ہو گیا، پھر عشاء اس وقت پڑھائی جب رات کا ایک حصہ گزر گیا، پھر کہا: نمازوں کا وقت یہی ہے تمہارے آج کی اور کل کی نمازوں کے بیچ میں“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 503
503 ۔ اردو حاشیہ: ➊ظہر کی نماز کا آخری وقت اور عصر کی نماز کا اول وقت اس حدیث اور دوسری تمام احادیث صحیحہ کی رو سے مثل اول ہی ہے، یعنی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو جائے مگر یہ برابری زوال کے سائے کو نکال کر ہو۔ زوال کے سائے سے مراد وہ سایہ ہے جو سورج ڈھلنے کے وقت کسی چیز کا ہوتا ہے۔ اس سائے کے علاوہ سایہ اس چیز کے برابر ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ یہ جمہور اہل علم، صحابہ، تابعین، محدثین اور فقہاء کا مذہب ہے۔ مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ظہر کا وقت دو مثل سائے تک رہتا ہے، یعنی جب ہر چیز کا سایہ دگنا ہو جائے۔ لیکن یہ بات نقلی دلائل سے خالی ہے، اس لیے اس مسئلے میں امام صاحب کے شاگرد بھی ان کا ساتھ نہ دے سکے۔ بعض عقلی دلائل ہیں مگر صریح اور صحیح احادیث کے مقابلے میں عقلی دلائل کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ شاذ مذہب ہے۔ بعض احناف نے امام صاحب کی کچھ رعایت کرتے ہوئے مثل اول اور مثل ثانی کے مابین وقت کو ظہر و عصر دونوں کے لیے ناموزوں قرار دیا ہے، لیکن یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ ظہر کا آخر وقت اور عصر کا اول وقت متصل ہیں، درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ ➋عصر کا مختار وقت مثل ثانی پر ختم ہو جاتا ہے جب کہ مجبور و معذور کے لیے غروب آفتاب تک باقی رہتا ہے۔ ➌مغرب کی نماز دونوں دن تقریباً ایک ہی وقت میں پڑھی کیونکہ مغرب کا وقت دیگر نمازوں کے اوقات کی نسبت کم ہوتا ہے اور غالباً اول وقت ہی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مقصد نہیں کہ فرض نماز سے قبل دو رکعت کی نفی کر دی جائے بلکہ وہ نماز بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور احادیث میں اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ بہرحال اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ ➍پہلے دن کی نماز کے آغاز اور دوسرے دن کی نماز کے اختتام کا درمیانی وقت اس نماز کا پورا وقت ہے لیکن افضل وقت کون سا ہے؟ وہ عشاء کے علاوہ ہر نماز کا اول وقت ہے اور عشاء کو مؤخر کر کے پڑھنا افضل ہے۔ ➎نماز کی اہمیت اور قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایسا عظیم الشان اور اہمیت کا حامل عمل ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو بھیج کر عملی مشق کرائی، دیگر احکام کی طرح صرف قول پر اکتفا نہیں کیا۔ ➏نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بذاتِ خود کوئی عمل مشروع قرار نہیں دے سکتے۔ ➐اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہے کہ اس نے نمازوں کے اوقات وسیع رکھے، انہیں تنگ نہیں رکھا کہ کہیں لوگ مشقت میں نہ پڑجائیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ فضل عظیم کا مالک ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 503