(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا سهل بن يوسف، قال: حدثنا حميد، عن القاسم بن ربيعة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" الخطا شبه العمد يعني بالعصا , والسوط مائة من الإبل منها اربعون في بطونها اولادها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْخَطَأُ شِبْهُ الْعَمْدِ يَعْنِي بِالْعَصَا , وَالسَّوْطِ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا".
قاسم بن ربیعہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ڈنڈے یا کوڑے سے غلطی سے قتل ہو جانا شبہ عمد کی طرح ہے، اس میں سو اونٹ کی دیت ہو گی جن میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4797 (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، مگر پچھلی روایتیں متصل مرفوع ہیں)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4804
اردو حاشہ: (1) مندرجہ بالا بعض روایات میں قتل خطا کے ساتھ عمد کا لفظ آیا ہے۔ اس سے مراد بھی شبہ عمد ہی ہے کیونکہ قتل عمد تو قتل خطا نہیں ہو سکتا۔ یہ تو آپس میں مقابل ہیں، لہٰذا مراد شبہ عمد ہی ہوگا، یعنی جو دیکھنے میں عمد جیسا ہو مگر حقیقتاً خطا ہو کیونکہ قاتل کی نیت قتل کی نہیں تھی بلکہ ویسے مارنے پیٹنے کی تھی۔ خطا (غلطی سے) قتل ہوگیا۔ (2) قتل شبہ عمد کی دیت میں سے چالیس اونٹنیوں کا بیان تو کر دیا گیا ہے کہ وہ حاملہ ہوں، باقی ساٹھ کا بیان نہیں کیا گیا مگر دیگر احادیث میں ذکر ہے کہ تیس حقے ہوں (تین سالہ اونٹنیاں جو چوتھے میں داخل ہوں) اور تیس جزعے (چار سالہ اونٹنیاں جو پانچویں میں داخل ہوں)۔ قتل عمد میں بھی معافی کی صورت میں دیت ہوگی۔ تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس حاملہ (پانچ سے آٹھ سالہ)۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4804