(مرفوع) اخبرنا يوسف بن سعيد، قال: حدثنا حجاج بن محمد، عن ابن جريج، قال: اخبرني عمرو بن دينار، انه سمع طاوسا يحدث، عن ابن عباس، عن عمر رضي الله عنه , انه نشد قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك، فقام حمل بن مالك، فقال:" كنت بين حجرتي امراتين , فضربت إحداهما الاخرى بمسطح , فقتلتها وجنينها، فقضى النبي صلى الله عليه وسلم في جنينها بغرة وان تقتل بها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّهُ نَشَدَ قَضَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَقَامَ حَمَلُ بْنُ مَالِكٍ، فَقَالَ:" كُنْتُ بَيْنَ حُجْرَتَيِ امْرَأَتَيْنِ , فَضَرَبَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِمِسْطَحٍ , فَقَتَلَتْهَا وَجَنِينَهَا، فَقَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنِينِهَا بِغُرَّةٍ وَأَنْ تُقْتَلَ بِهَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی تلاش تھی، تو حمل بن مالک رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: میں دو عورتوں کے کمروں کے درمیان میں رہتا تھا، ایک نے دوسری کو خیمے کی لکڑی سے مارا اور اسے اور اس کے پیٹ کے بچے کو مار ڈالا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے بدلے ایک غلام یا لونڈی دینے اور اس (عورت) کے بدلے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 21 (4572، 4573، 4574)، سنن ابن ماجہ/الدیات 11 (2641)، (تحفة الأشراف: 3444) مسند احمد (1/364)، ویأتي عند المؤلف برقم: 4820 (صحیح الإسناد)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4743
اردو حاشہ: (1) حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں شاید اسی قسم کا مسئلہ پیش آیا ہوگا کہ عورت بھی ماری گئی اور پیٹ کا بچہ بھی۔ اس لیے پوچھنے کی ضرورت پیش آئی۔ واللہ أعلم! (2)”دو عورتیں“ یہ دونوں عورتیں آپس میں سوکنیں تھیں۔ سوکنا پے میں ایسا ممکن ہے۔ (3)”پیٹ کے بچے کی دیت“ جبکہ بچے میں روح پھونکی جا چکی ہو، یعنی حمل چار ماہ کا ہو جائے تو اس کے بعد پیدائش تک کسی بھی وقت کسی کی ضرب سے بچہ ضائع ہو جائے تو اس کی دیت غلام یا لونڈی یا قیمت کی صورت میں لاگو ہوگی۔ پیدائش کے بعد کوئی مار دے، خواہ اس نے ایک ہی سانس لیا ہو تو پھر قصاص یا پوری دیت، یعنی سو اونٹ ادا کرنے پڑیں گے۔ (4)”قتل کرنے کا حکم دیا“ گویا قاتل کو قتل کیا جائے گا، خواہ اس نے ڈنڈے سوٹے وغیرہ ہی سے مارا ہو الا یہ کہ مقتول کے اولیاء معاف کر دیں تو پھر دیت ہوگی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4743