الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3340
´پیمانوں میں (معتبر) مدینہ کا پیمانہ ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تول میں مکے والوں کی تول معتبر ہے اور ناپ میں مدینہ والوں کی ناپ ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: فریابی اور ابواحمد نے سفیان سے اسی طرح روایت کی ہے اور انہوں نے متن میں ان دونوں کی موافقت کی ہے اور ابواحمد نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جگہ «عن ابن عباس» کہا ہے اور اسے ولید بن مسلم نے حنظلہ سے روایت کیا ہے کہ وزن (باٹ) مدینہ کا اور پیمانہ مکہ کا معتبر ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: مالک بن دینار کی حدیث جسے انہوں نے عطاء سے عطاء نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3340]
فوائد ومسائل:
شرعی ادائیگیوں (زکواۃ او ر فطرانہ وغیرہ) میں وزن اہل مکہ کا معتبر ہے۔
اور مد اور صاع اہل مدینہ کا اشیاء کی مقدار کا تعین کرنے کے لئے ناپ تول کا نظام وجود میں آیا۔
یہ عمل تجارت کی انتہائی اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔
مختلف علاقوں کے ناپ تول کے پیمانوں کے ناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناپ تول کےلئے بنیادی اکائی قدرتی اشیاء کو بنایا گیا۔
برصغیر میں جوتولے چھٹانک سیر کا نظام رائج تھا اس کی بنیادی اکائی رتی تھی۔
یہ ایک پودے کا سرخ رنگ کا بیج ہے۔
اب جو نظام دنیا کے بڑے حصے میں رائج ہے۔
یعنی کلو گرام تو گرام چنے کے دانے کو کہتے ہیں۔
جسے ابتداء میں بنیادی اکائی مانا گیا اونس اور پاوئنڈ کا برطانوی نظام گرین (Grain) پر مبنی ہے۔
جو غلے بالخصوص مکئی کے دانے کو کہتے ہیں۔
پیمائش میں فٹ (پائوں) یا ہاتھ وغیرہ کو بنیاد بنایا گیا۔
ظاہر ہے مکئ یا چنے کے ہردانے کا وزن ایک سانہیں ہوسکتا۔
تعامل کے ساتھ اس کم از کم مقدار کو حتمی طور پر متعین کر لیا گیا۔
اور اس طرح ایک ہی معیار کے تولنے کے باٹ وغیرہ وجود میں آئے۔
تعامل یا زیادہ سے زیادہ برتنے کا عمل ناپ تول کے نظام میں کی تکمیل میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔
چونکہ مدینہ ایک زرعی شہر تھا۔
جہاں لین دین میں ناپ یا کیل رائج تھا۔
مدینہ کے تعامل نے اس نظام کو پختہ کردیا تھا۔
اس لئے ناپ میں اہل مدینہ کے پیمانوں کو بنیادی معیار قرار دیا۔
مکہ ہر طرح کی اشیاء تجارت کا مرکز تھا جن میں قیمتی اشیاء بھی شامل تھیں۔
سونے چاندی خوشبودار مصالحے وغیرہ کا لین دین وزن سے ہوتا ہے۔
مکہ کے تعامل نے وزن کے نظام کو پختہ کردیا تھا۔
اس لئے وزن میں مکہ کے تعامل (Practice) کو معیار قرار دیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3340