الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
24. بَابُ : تَفْسِيرِ ذَلِكَ
24. باب: بیع ملامسہ و منابذہ کی تفسیر۔
Chapter: Explanation Of That
حدیث نمبر: 4514
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إبراهيم بن يعقوب بن إسحاق , قال: حدثنا عبد الله بن يوسف , قال: حدثنا الليث , عن عقيل , عن ابن شهاب , قال: اخبرني عامر بن سعد بن ابي وقاص , عن ابي سعيد الخدري , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نهى عن الملامسة لمس الثوب لا ينظر إليه , وعن المنابذة وهي طرح الرجل ثوبه إلى الرجل بالبيع قبل ان يقلبه او ينظر إليه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاق , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ , قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ عُقَيْلٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنِ الْمُلَامَسَةِ لَمْسِ الثَّوْبِ لَا يَنْظُرُ إِلَيْهِ , وَعَنِ الْمُنَابَذَةِ وَهِيَ طَرْحُ الرَّجُلِ ثَوْبَهُ إِلَى الرَّجُلِ بِالْبَيْعِ قَبْلَ أَنْ يُقَلِّبَهُ أَوْ يَنْظُرَ إِلَيْهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامسہ سے منع فرمایا، اور وہ یہ ہے کہ آدمی کپڑے کو چھو لے اسے اندر سے دیکھے بغیر (اور بیع ہو جائے) اور منابذہ سے منع فرمایا، اور منابذہ یہ ہے کہ آدمی اپنا کپڑا دوسرے کی طرف بیع کے ساتھ پھینکے اس سے پہلے کہ وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 63 (2144)، اللباس 20 (5820)، 21(5822)، صحیح مسلم/البیوع 1 (1512)، سنن ابی داود/البیوع 25 (3379)، (تحفة الأشراف: 4087)، مسند احمد (3/6، 59، 66، 68، 71، 95)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 4518 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: دور جاہلیت میں اس طرح کپڑا چھو کر یا پھینک کر بغیر دیکھے بیع کر لیتے اور ایجاب و قبول نہ ہوتا، اس سے منع کیا گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري2144سعد بن مالكالمنابذة وهي طرح الرجل ثوبه بالبيع إلى الرجل قبل أن يقلبه أو ينظر إليه نهى عن الملامسة والملامسة لمس الثوب لا ينظر إليه
   صحيح مسلم3806سعد بن مالكنهى عن الملامسة والمنابذة في البيع
   سنن النسائى الصغرى4516سعد بن مالكبيعتين عن الملامسة والمنابذة
   سنن النسائى الصغرى4515سعد بن مالكالملامسة المنابذة في البيع
   سنن النسائى الصغرى4514سعد بن مالكنهى عن الملامسة لمس الثوب لا ينظر إليه عن المنابذة وهي طرح الرجل ثوبه إلى الرجل بالبيع قبل أن يقلبه أو ينظر إليه
   سنن النسائى الصغرى4518سعد بن مالكالملامسة والملامسة لمس الثوب لا ينظر إليه المنابذة والمنابذة طرح الرجل ثوبه إلى الرجل قبل أن يقلبه
   سنن النسائى الصغرى4519سعد بن مالكبيعتين أما البيعتان فالملامسة والمنابذة والمنابذة أن يقول إذا نبذت هذا الثوب فقد وجب يعني البيع والملامسة أن يمسه بيده ولا ينشره ولا يقلبه إذا مسه فقد وجب البيع
   سنن ابن ماجه2170سعد بن مالكنهى عن الملامسة المنابذة
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4514 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4514  
اردو حاشہ:
رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں اہل جاہلیت دھوکے والے سودے کرتے تھے۔ آپ نے ان سب کو ممنوع قرار دے دیا۔ یہ ملامسہ اور منابذہ بھی اسی قسم کے جاہلی سودے تھے جن میں صاف دھوکا ہوتا تھا، مثلاً: بیچنے والا خریدنے والے کو کہتا کہ جس کپڑے کو تمہارا ہاتھ لگ گیا، وہ اتنے میں تجھے فروخت، خواہ کسی کپڑے کو ہاتھ لگ جاتا، خواہ وہ اندر سے بالکل پھٹا ہوتا۔ صرف ہاتھ لگنے سے بیع پکی ہو جاتی تھی۔ کھول کر دیکھنے کی اجاز ت نہیں ہوتی تھی اور بعد میں وہ واپس بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے ملامسہ کہتے تھے۔ اسی طرح بیچنے والا خریدنے والے کی طرف کوئی چیز (کپڑا یا کچھ اور) پھینکتا، اتنے سے وہ سودا پکا ہو جاتا۔ اس چیز کو پرکھنے اور جانچنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں وہ چیز بھی واپس نہیں ہو سکتی تھی، خواہ وہ کتنی ہی عیب دار کیوں نہ ہوتی۔ اسے منابذہ کہتے تھے۔ ظاہر ہے شریعت اس قسم کے مبہم سودے اور دھوکے بازی کو کیسے جائز قرار دے سکتی تھی، لہٰذا سختی کے ساتھ ان سے روک دیا گیا۔ منابذہ کی ایک اور تفسیر بھی کی گئی ہے کہ خریدار کنکری پھینکتا، کنکری جس چیز پر جا گرتی، اس کا سودا ہو جاتا تھا بغیر تحقیق کیے کہ وہ چیز کیسی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4514   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2170  
´بیع منابذہ اور ملامسہ کی ممانعت۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامسہ و منابذہ سے منع کیا ہے۔ سہل نے اتنا مزید کہا ہے کہ سفیان نے کہا کہ ملامسہ یہ ہے کہ آدمی ایک چیز کو ہاتھ سے چھوئے اور اسے دیکھے نہیں، (اور بیع ہو جائے) اور منابذہ یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے کہے کہ جو تیرے پاس ہے میری طرف پھینک دے، اور جو میرے پاس ہے وہ میں تیری طرف پھینکتا ہوں (اور بیع ہو جائے)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2170]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  چیز خریدتے وقت خریدار کو حق حاصل ہے کہ پہلے چیز کو اچھی طرح دیکھ بھال لے، اور چیک کے لے تا کہ اسے معلوم ہو جائے کہ چیز اچھی ہے یا بری، نیز اس میں کوئی عیب وغیرہ تو نہیں، اور اگر ہے تو کس حد تک، تاکہ اس کے مطابق وہ فیصلہ کرے کہ اسے فلاں قیمت تک خرید لینا مناسب ہے۔

(2)
  جس بیع میں خریدار کا یہ حق سلب کر لیا جائے وہ بیع ناجائز اور غیر قانونی ہے۔

(3)
  لاٹری اور اس قسم کی انعامی سکیمیں جن میں یقین نہ ہو کہ کیا ملے گا، سب غیر شرعی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2170   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3806  
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو بیعوں اور دو لباسوں سے منع فرمایا، بیع ملامسہ سے اور بیع منابذہ سے اور بیع ملامسہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کا کپڑا، دن یا رات کو اپنے ہاتھ سے چھو لے اور یہی پلٹنا تصور ہو، اور بیع منابذہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنا کپڑا دوسرے کی طرف پھینک دے اور دوسرا شخص اپنا کپڑا اس کی طرف پھینک دے اور اس طرح بغیر دیکھے اور بغیر رضا مندی کے ہی بیع ہو جائے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3806]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
جو چیز سامنےموجود نہیں ہے اس کی بیع جائز نہیں ہے،
ائمہ کے اس بیع کے بارے میں تین نظریات ہیں:
(1)
غائب چیز کی بیع جائز نہیں ہے۔
امام شافعی کا قول یہی ہے۔
(2)
غائب چیزکی بیع جائز ہے اور دیکھنے کے بعد خریدارکو رکھنے یا چھوڑنے کا اختیار ہوگا۔
احناف ائمہ کا قول یہی ہے اور امام مالک اور امام شافع کی طرف بھی یہ قول منسوب کیا گیا ہے۔
(3)
جب غائب چیز کی صحیح صحیح صورت حال یعنی اس کی کیفیت وحالت بیان کر دی جائے تو بیع جائز ہے اور اگر چیز بیان کردہ صفت اورحالت کے مطابق نہ ہو تو پھر خریدار کو رکھنے یا چھوڑنے کا اختیار ہو گا،
امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔
امام مالک اور امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہےاور یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں غرر اور قمار کا خطرہ نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3806   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2144  
2144. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع منابذہ سے منع فرمایا اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص خریدو فروخت کرتے وقت کپڑا خریدار کی طرف پھینک دے قبل اس کے کہ وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھے۔ اسی طرح آپ نے بیع ملامسہ سے بھی منع فرمایا اور ملامسہ یہ ہے کہ دیکھے بغیر صرف کپڑےکو ہاتھ لگانے ہی سے بیع پختہ ہو جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2144]
حدیث حاشیہ:
بیع ملامسہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ جب تو میرے کپڑے کو چھولے اور میں تیرے کپڑے کو چھولوں تو بیع واجب ہوجائے گی۔
زمانۂ جاہلیت میں اس قسم کی بیع کا عام رواج تھا۔
چونکہ اس میں دھوکا اور جہالت ہے، اس لیے شریعت نے اس سے منع فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2144   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.