(مرفوع) اخبرنا عمرو بن عثمان، قال: حدثنا بقية، عن بحير، عن خالد، عن جبير بن نفير، عن ابي ثعلبة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تحل النهبى، ولا يحل من السباع كل ذي ناب، ولا تحل المجثمة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَحِلُّ النُّهْبَى، وَلَا يَحِلُّ مِنَ السِّبَاعِ كُلُّ ذِي نَابٍ، وَلَا تَحِلُّ الْمُجَثَّمَةُ".
ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوٹا ہوا مال حلال نہیں، دانت (سے پھاڑنے) والا درندہ حلال نہیں، اور «مجثمہ» حلال نہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مجثمہ ہر وہ جانور جسے باندھ کر اس پر تیر وغیرہ چلایا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 11865)، مسند احمد (4/194)، ویأتي عند المؤلف برقم: 4443) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4331
اردو حاشہ: ”باندھ کر نشانوں سے مارا ہوا جانور“ اس سے مراد وہ جانور ہے جس کو پکڑ کر اس طرح باندھ دیا جائے کہ وہ بھاگ نہ سکے بلکہ حرکت بھی نہ کر سکے اور پھر تیروں وغیرہ کے ساتھ نشانے باندھ باندھ کر اسے تڑپا تڑپا کر مارا جائے۔ یہ طریقہ ظالمانہ ہونے کے ساتھ ساتھ اور شکار کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اصول یہ ہے کہ جو جانور پکڑا ہوا ہے، خواہ وہ گھریلو ہو یا جنگلی، اسے لٹا کر ذبح کیا جائے یا کھڑا کر کے نحر کیا جائے۔ اور اگر وہ جانور قابو میں نہ رہے، جیسے جنگلی جانور ہوتے ہیں تو اسے بسم اللہ پڑھ کر تیر یا کتے کے ساتھ شکار کیا جائے۔ ان دو طریقوں کے علاوہ مارا گیا جانور حرام ہوگا۔ اس کا حکم مردار کا ہوگا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4331