(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، عن شعبة، عن سماك، قال: سمعت مري بن قطري، عن عدي بن حاتم، قال: قلت: يا رسول الله , ارسل كلبي فياخذ الصيد , ولا اجد ما اذكيه به، فاذكيه بالمروة والعصا؟، قال:" اهرق الدم بما شئت، واذكر اسم الله عز وجل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُرِّيَّ بْنَ قَطَرِيٍّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أُرْسِلُ كَلْبِي فَيَأْخُذُ الصَّيْدَ , وَلَا أَجِدُ مَا أُذَكِّيهِ بِهِ، فَأُذَكِّيهِ بِالْمَرْوَةِ وَالْعَصَا؟، قَالَ:" أَهْرِقِ الدَّمَ بِمَا شِئْتَ، وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں، وہ شکار پکڑ لیتا ہے، لیکن مجھے ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے ذبح کروں تو میں پتھر (چاقو نما سفید پتھر) سے یا (دھاردار) لکڑی سے اسے ذبح کرتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے چاہو خون بہاؤ اور اللہ کا نام لو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الضحایا 15 (2824)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 5 (3177)، (تحفة الأشراف: 9875)، مسند احمد (4/256، 258)، ویأتي عند المؤلف فی الضحایا19 (برقم: 4406) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4309
اردو حاشہ: ”خون بہا“ جانور کے ذبح ہونے کے لیے خون کا مکمل بہہ جانا ضروری ہے، چاہے کسی چیز سے بہایا جائے، یعنی لوہا، پتھر، لکڑی وغیرہ۔ مگر اس کا تیز دھار ہونا لازمی ہے تا کہ جانور کو ناجائز تکلیف نہ ہو، نیز جانور کو چوٹ نہ لگے، دباؤ نہ پڑے ورنہ جانور چوٹ یا دباؤ سے بھی ختم ہو سکتا ہے یا مکمل خون بہنے سے رک سکتا ہے۔ اس طرح جانور حرام ہو جائے گا۔ اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں، البتہ کتاب الصید سے تعلق ہے۔ سنن نسائی میں ایسے بہت ہے۔ کیوں؟ ممکن ہے کسی ناسخ کی غلطی ہو یا لفظ باب چھوٹ گیا ہو۔ کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4309
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2824
´دھار دار پتھر سے ذبح کرنے کا بیان۔` عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! اگر ہم میں سے کسی کو کوئی شکار مل جائے اور اس کے پاس چھری نہ ہو تو کیا وہ سفید (دھار دار) پتھر یا لاٹھی کے پھٹے ہوئے ٹکڑے سے (اس شکار کو) ذبح کر لے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بسم اللہ اکبر کہہ کر (اللہ کا نام لے کر) جس چیز سے چاہے خون بہا دو۔“[سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2824]
فوائد ومسائل: سابقہ احادیث کی روشنی میں دانت اور ناخن سے ذبح نہیں کیا جاسکتا، اس کے علاوہ کسی بھی تیز دھار چیز سے ذبح کیا جاسکتا ہے۔ بشرط یہ ہے کہ اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اس کا کھانا حلال ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2824
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3177
´کس چیز سے ذبح کرنا جائز ہے؟` عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم شکار کرتے ہیں اور ہمیں ذبح کرنے کے لیے تیز پتھر اور دھار دار لکڑی کے سوا کچھ نہیں ملتا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چیز سے چاہو خون بہاؤ، اور اس پر اللہ کا نام لے لو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3177]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: ڈنڈے کی کھچی سے مراد لکڑی کا باریک دھاردار کونے والا ٹکڑا ہے جسے چھری کے ساتھ استعمال کرکے ذبح کرنا ممکن ہو۔ تاہم رگوں کا کٹ کر خون بہنا شرط ہے تاکہ وہ ذبح ہو، کسی چیز کے دباؤ سے گلا گھونٹ کر مارنے میں شمار نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3177