الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: فرع و عتیرہ کے احکام و مسائل
The Book of al-Fara' and al-'Atirah
حدیث نمبر: 4227
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا فرع ولا عتيرة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا فَرَعَ وَلَا عَتِيرَةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرع اور عتیرہ واجب نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العقیقة 4 (5473)، الأضاحي 6 (1976)، سنن ابی داود/الأضاحي 20 (2831)، سنن الترمذی/الضحایا 15 (1512)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 2(3168)، (تحفة الأشراف: 13127، 13269)، مسند احمد (2/229، 239، 279، 490)، سنن الدارمی/الأضاحي 8 (2007) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: فرع: زمانہ جاہلیت میں جانور کے پہلوٹے کو بتوں کے واسطے ذبح کرنے کو فرع کہتے ہیں، ابتدائے اسلام میں مسلمان بھی ایسا اللہ تعالیٰ کے واسطے کرتے تھے پھر کفار سے مشابہت کی بنا پر اسے منسوخ کر دیا گیا اور اس سے منع کر دیا گیا۔ اور عتیرہ: زمانہ جاہلیت میں رجب کے پہلے عشرہ میں تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرتے تھے، اور اسلام کی ابتداء میں مسلمان بھی ایسا کرتے تھے۔ کافر اپنے بتوں سے تقرب کے لیے اور مسلمان اللہ تعالیٰ سے تقرب کے لیے ذبح کرتے تھے، پھر یہ دونوں منسوخ ہو گئے اب نہ فرع ہے اور نہ عتیرہ بلکہ مسلمانوں کے لیے عید الاضحی کے روز قربانی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري5474عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة قال والفرع أول نتاج كان ينتج لهم كانوا يذبحونه لطواغيتهم والعتيرة في رجب
   صحيح البخاري5473عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة
   صحيح مسلم5116عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة
   جامع الترمذي1512عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة والفرع أول النتاج كان ينتج لهم فيذبحونه
   سنن أبي داود2831عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة
   سنن النسائى الصغرى4228عبد الرحمن بن صخرالفرع والعتيرة
   سنن النسائى الصغرى4227عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة
   سنن ابن ماجه3168عبد الرحمن بن صخرلا فرعة ولا عتيرة
   مسندالحميدي1126عبد الرحمن بن صخرلا فرع ولا عتيرة
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4227 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4227  
اردو حاشہ:
یہ دو قسم کی قربانیاں تھیں جو جاہلیت میں رائج تھیں۔ اونٹنی سے پیدا ہونے والا پہلا بچہ بتوں کے نام بطور تشکر ذبح کردیا جاتا تھا۔ اسے فرع کہتے تھے۔ یا جس کے پاس سو اونٹ پورے ہوجاتے تو وہ ہر سال ایک جوان اونٹ بتوں کے نام پر ذبح کردیتا تھا۔ اسے بھی فرع کہتے تھے۔ ماہ رجب کے شروع میں مشرکین ایک بکری ذبح کرتے تھے، اسے عتیرہ کہا جاتا تھا۔ اسلام نے جہاں جاہلیت کی دوسری رسمیں ختم کردیں، ان کو بھی ختم کردیا، البتہ اگر کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کے نام پر جانور کا پہلا بچہ یا سوواں جانور بطور تشکر ذبح کرکے مساکین کو صدقہ کردے تو اسے صدقہ کا ثواب مل جائے گا جبکہ قربانی کی بجائے مسلمانوں کے لیے ذوالحجہ میں قربانی مشروع کی گئی ہے، لہٰذا وہی کرنی چاہیے۔ ہاں، کوئی ویسے ہی صدقہ کرنا چاہے تو جب مرضی ہو، گوشت بنا کر صدقہ کردے۔ کوئی پابندی نہیں۔ حدیث میں فرع اور عتیرہ کی نفی بتوں کے نام پر قربانی دینے میں ہے وگرنہ اﷲ کے نام پر کسی بھی وقت قربانی دینا مستحب عمل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4227   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3168  
´فرعہ اور عتیرہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ «فرعہ» ہے اور نہ «عتیرہ» (یعنی واجب اور ضروری نہیں ہے)، ہشام کہتے ہیں: «فرعہ»: جانور کے پہلوٹے بچے کو کہتے ہیں، ۱؎ اور «عتیرہ: وہ بکری ہے جسے گھر والے رجب میں ذبح کرتے ہیں ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3168]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جاہلیت میں بتوں کے نام کی مختلف قربانیاں دی جاتی تھیں۔
ان میں سے ایک فرعہ بھی ہے۔
لیکن جب قربانی کا حکم ہوا تو اس خاص صفت کا اہتمام کرتے ہوئے قربانی دینا منسوخ ہوگیا، البتہ اللہ کے نام پر حسب توفیق جانور ذبح کرکے مسکینوں کو کھلانا ایک نیکی ہے جو منسوخ نہیں، یہ بات یاد رہےکہ شریعت میں ثابت قربانی (عید الاضحی اور عقیقہ)
کے علاوہ کسی اور دن کو خاص کرکے قربانی یا صدقہ دینا درست نہیں۔

(2)
عتیرہ کی قربانی رجب کے مہینے میں دی جاتی تھی۔
اب وہ بھی منسوخ ہے لیکن دن اور جگہ کی تعین کے بغیراللہ کے نام پر حسب توفیق جانور ذبح کرنا منسوخ نہیں بلکہ مستحب ہے، صرف وجوب منسوخ ہے۔
مزید دیکھیے، حدیث: 3125 کے فوائد و مسائل۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3168   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1126  
1126- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: فرع اور عتیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔‏‏‏‏ زہر ی کہتے ہیں: فرع سے مراد جانور کے ہاں سب سے پہلا پیدا ہونے والا بچہ ہے اور عتیرہ سے مراد وہ بکری ہے، جسے ہر گھر کے افراد رجب میں ذبح کرتے ہیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1126]
فائدہ:
اس حدیث میں زمانہ جاہلیت کے دو کاموں کا ذکر ہے، اور اسلام نے ان دونوں سے منع کیا ہے:
ایک فرع، اس کا مطلب ہے: کفار جانور کے پہلے بچے کو بتوں کے نام پر چھوڑ تے تھے، اور یہ منع ہے، آج بھی بعض لوگ جانوروں کا پہلا بچہ کسی مزار کے نام پر چھوڑ دیتے ہیں، جو کہ حرام کام ہے
دوسرا عتیر ہ، (وہ بکری جس کو ماہ رجب میں گھر والے تمام لوگوں کی طرف سے ذبح کریں) اور اس سے بھی منع کیا گیا ہے، آج کل بعض لوگ رجب کے مہینے میں کونڈوں اور کئی خاص دعوتوں کا انتظام کرتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1124   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5473  
5473. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فرع اور عتیرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ فرع، اونٹنی کا وہ پہلا بچہ ہے جیسے دور جاہلیت میں کافر اپنے بتوں کے لیے ذبح کرتے تھے اور عتیرہ کو رجب میں ذبح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5473]
حدیث حاشیہ:
عوام جہلاء مسلمانوں میں اب تک یہ رسم ماہ رجب میں کونڈے بھرنے کی رسم کے نام سے جاری ہے۔
رجب کے آخری عشرہ میں بعض جگہ بڑے ہی اہتمام سے یہ کونڈے بھرنے کا تہوار منایا جاتا ہے۔
بعض لوگ اسے کھڑے پیر کی نیاز بتلاتے اور اسے کھڑے ہی کھڑے کھاتے ہیں۔
یہ جملہ محدثات بدعات ضلالہ ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایسی خرافات سے بچنے کی ہدایت بخشے، آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5473   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5474  
5474. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فرع ور عتیرہ کوئی شے نہیں ہیں۔ فرع اونٹنی کا وہ پہلا بچہ جسے دور جاہلیت میں کافر لوگ اپنے بتوں کے نام سے ذبح کرتے تھے اور عتیرہ کو رجب میں ذبح کیا جاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5474]
حدیث حاشیہ:
یوں للہ صدقہ خیرات، قربانی ہر وقت جائز ہے مگر ذی الحجہ کے علاوہ کسی اور مہینہ کی قید لگا کر کوئی قربانی یا خیرات کرنا ایسے کاموں کی اسلام میں کوئی اصل نہیں ہے جیسے ایصال ثواب میت کے لیے جائز ہے مگر تیجہ یا وہم یا چہلم کی تخصیص ناجائز اور بدعت ہے جس کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے۔
تمت بالخیر۔
خاتمہ الحمدللہ الذي بنعمته تتم الصالحات! حمد وصلٰوۃ کے بعد محض اللہ پاک کے فضل و کرم اور فدائیان اسلام کی پر خلوص دعاؤں کے نتیجہ میں آج اس پارے کی تسوید سے فراغت حاصل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ میری قلمی لغزشوں کو معاف فرمائے اور اس خدمت حدیث نبوی کو قبول فرما کر جملہ معاونین کرام و شائقین عظام اور برادران اسلام کے لیے ذریعہ برکات دارین بنائے۔
جو دور و نزدیک علاقوں سے تکمیل صحیح بخاری شریف مترجم اردو کے لیے پر خلوص عظام دعاؤں سے مجھ ناچیز کی ہمت افزائی فرما رہے ہیں۔
یا اللہ! جس طرح تو نے یہاں تک کی منزلیں میرے لیے آسان فرمائی ہیں اسی طرح بقایا آٹھ پاروں کی اشاعت بھی آسان فرمائیو اور مجھ کو توفیق دیجئے کہ تیری اور تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی عین رضا کے مطابق میں اس خدمت کو انجام دے سکوں۔
یا اللہ! میرے اساتذہ کرام و جملہ معاونین عظام اور آل اولاد کے حق میں یہ خدمت قبول فرما اور ہم سب کو قیامت کے دن دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع فرمائیو، آپ کے دست مبارک سے آب کوثر نصیب فرمائیو اور اس خدمت عظمیٰ کو ہم سب کے لیے باعث نجات بنائیو۔
ربنا تقبل منا إنك أنت السمیع العلیم۔
وتب علینا إنك أنت التواب الرحیم۔
برحمتك یا أرحم الراحمین وصل علیٰ حبیبك خیر المر سلین و علیٰ آله و أصحابه أجمعین آمین یا رب العالمین۔
راقم محمد داؤد راز ولد عبداللہ السلفی مسجد اہلحدیث نمبر 1421 اجمیری گیٹ دہلی نمبر 6 بھارت (ربیع الاول سنہ 1395ھ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5474   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5473  
5473. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فرع اور عتیرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ فرع، اونٹنی کا وہ پہلا بچہ ہے جیسے دور جاہلیت میں کافر اپنے بتوں کے لیے ذبح کرتے تھے اور عتیرہ کو رجب میں ذبح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5473]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابو داود میں مزید وضاحت ہے کہ اونٹنی کے پہلے بچے کو بتوں کے نام پر ذبح کر کے اسے خود کھا جاتے اور اس کی جلد درختوں پر پھینک دیتے۔
(سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2833)
ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرع کو حق قرار دیا ہے جیسا کہ سنن نسائی میں ہے۔
(سنن النسائي، الفرع و العتیرة، حدیث: 4230)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فرع جائز ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کے لیے ذبح کیا جائے۔
(فتح الباري: 739/9) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی یہ رسم دور اسلام میں اسی طرح قائم رہی مگر مسلمان اسے اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنے لگے، پھر اس رسم کو موقوف اور منسوخ کر دیا گیا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5473   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5474  
5474. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فرع ور عتیرہ کوئی شے نہیں ہیں۔ فرع اونٹنی کا وہ پہلا بچہ جسے دور جاہلیت میں کافر لوگ اپنے بتوں کے نام سے ذبح کرتے تھے اور عتیرہ کو رجب میں ذبح کیا جاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5474]
حدیث حاشیہ:
(1)
دور جاہلیت میں اسے رجبیہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ اسے رجب میں ذبح کرتے تھے۔
اسلام نے اس رسم کو ختم کر دیا کیونکہ واضح طور پر اس میں شرک کے جراثیم پائے جاتے تھے۔
لیکن امام شافعی رحمہ اللہ نے اسے مشروع قرار دیا ہے جب اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے جیسا کہ منیٰ میں کھڑے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
اللہ کے رسول! ہم دور جاہلیت میں رجب کے مہینے میں عتیرہ ذبح کرتے تھے، آپ اس کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
اللہ کے نام پر جس مہینے میں چاہو ذبح کرو اور اللہ کے نام سے لوگوں کو کھلاؤ۔
(سنن النسائي، الفرع و العتیرة، حدیث: 4234) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق صدقہ و خیرات قربانی ہر وقت جائز ہے مگر ذوالحجہ کے علاوہ کسی دوسرے مہینے کی پابندی سے کوئی قربانی یا خیرات کرنا درست نہیں جیسا کہ میت کی طرف سے صدقہ و خیرات جائز ہے لیکن قل خوانی، تیجہ، ساتواں، دسواں یا چہلم کے نام سے صدقہ و خیرات کرنا بدعت ہے۔
اس قسم کی تخصیص کا شریعت میں جواز نہیں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5474   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.