اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں (جب وہ اس کی گواہی دے دیں گے تو) پھر ان کے خون اور ان کے مال حرام ہو جائیں گے مگر اس کے (جان و مال کے) حق کے بدلے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3988
اردو حاشہ: ”قابل احترام ہو جاتے ہیں“ نہ انہیں قتل کیا جا سکتا ہے نہ زخمی، نہ ان کی بے عزتی کی جا سکتی ہے اور نہ ان کا مال ان کی مرضی کے بغیر لیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر ان کے ذمے کسی کا حق بنتا ہو تو وہ انہیں ادا کرنا ہو گا، مثلاً: انہوں نے کسی کو قتل یا زخمی کیا ہو تو انہیں قصاص یا دیت دینی پڑے گی۔ اسی طرح ان کے ذمے کسی کا مالی حق واجب الادا ہے تو وہ حکومت زبردستی بھی دلائے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3988
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3929
´کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے سے ہاتھ روک لینا۔` اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اور آپ حکایات و واقعات سنا کر ہمیں نصیحت فرما رہے تھے، کہ اتنے میں ایک شخص حاضر ہوا، اور اس نے آپ کے کان میں کچھ باتیں کیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے جا کر قتل کر دو“، جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر واپس بلایا، اور پوچھا: ”کیا تم «لا إله إلا الله» کہتے ہو“؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ جاؤ اسے چھوڑ دو، کیونکہ مجھے لوگوں سے لڑائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ «لا إ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3929]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نبیﷺ نے سرگوشی کرنے والے کی بات سے یہ سمجھا کہ یہ شخص دل سے مسلمان نہیں بعد میں اس کے ظاہری اسلام پر اعتماد کرتے ہوئے اسے چھوڑدیا۔ امام سیوطی ؒ اس کی بابت لکھتے ہیں: زیادہ صحیح تشریح یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو اجازت تھی کہ کسی سے اس کی دلی کیفیات کے مطابق سلوک کریں، چنانچہ اس کے مطابق عمل کرنے کا ارادہ فرمایا (کفر کی بنا پر قتل کرنا چاہا) پھر نبی ﷺ کو یہ بات بہتر محسوس ہوئی کہ ظاہر پرعمل کیاجائے (اس کے ظاہری اسلام کی وجہ سے مسلمانوں والا سلوک کیاجائے) کیونکہ یہ قانون نبیﷺ اور امت سب کے لیے ہے اس لیے آپ اس طرف مائل ہوگئے اور باطن (کی حقیقی کیفیت) کے مطابق عمل سےاجتناب فرمایا۔ (شرح سنن نسائي كتاب تحريم الدم)
(2) سنن نسائی کے اس باب میں حضرت اوس رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی مروی ہے۔ حضرت اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں قبیلہ ثقیف کے وفد میں شامل ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں خیمے میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا۔ میرے اور نبی ﷺ کے سوا خیمے کے سب افراد سوگئے۔ (اس تنہائی کے وقت) ایک آدمی نے آ کر چپکے سے بات کی۔ نبی ﷺ نے فرمایا جا اسے قتل کردے۔ پھر فرمایا: کیا وہ لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کی اور میری رسالت کی گواہی نہیں دیتا؟ اس نے کہا: گواہی دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑدے۔ پھر آپ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں حتی کہ وہ لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کہیں۔ جب وہ اس کا اقرار کر لیں توا ن کے خون اور ان کے مال (مسلمانوں پر) حرام ہوگئے مگر اس حق کے ساتھ۔ (سنن نسائي، المحاربة، باب تحريم الدم، حديث: 3987)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3929