عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ پیدل جائے گی، اس نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں مسئلہ پوچھوں، میں نے اس کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”وہ پیدل جائے اور سوار ہو کر (بھی) جائے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3845
اردو حاشہ: (1) پیدل جانے کا کوئی فائدہ تو نہیں اور پیدل جانا ممکن بھی ہے‘ لہٰذا یہ نذر پوری کرنی چاہیے ورنہ کفارہ ادا کرے۔ اس راویت میں کفارے کا ذکر نہیں مگر بعض دیگر روایات سے کفارے کا اثبات ہوتا ہے‘ مثلاً: 3846۔ (2)”پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہو“ ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ پیدل چلے جہاں تک چل سکے۔ جب عاجز آجائے تو سوار ہوجائے۔ اور ممکن ہے آپ کا مقصود یہ ہو کہ چاہے پیدل چلے‘ چاہے سوار ہو‘ البتہ سواری کی صورت میں کفارہ دینا ہوگا۔ گویا ایسی نذر بے فائدہ ہونے کی وجہ سے پوری کرنا ضروری نہیں‘ کفارہ دے سکتا ہے۔ پہلے معنیٰ کی رو سے اسے طاقت کی حد تک چلنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) ایسی نذر کی صورت میں کہاں سے پیدل چلے؟ بعض فقہاء کے نزدیک گھر ہی سے پیدل چلے اور بعض کے نزدیک میقات سے احرام باندھنے کے بعد۔ پہلے معنیٰ متبادر ہیں مگر بسا اوقات یہ ممکن نہیں‘ مثلاً: پاکستان والوں کے لیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3845
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1182
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)` سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری بہن نے بیت اللہ تک ننگے پاؤں چل کر جانے کی نذر مانی اور اس نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لئے (اس معاملہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کروں چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ طلب کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہو لے۔“(بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں مسند احمد اور چاروں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ تیری بہن کو تکلیف و مشقت میں مبتلا کر کے کیا کرے گا۔ اسے حکم دو کہ چادر اوڑھ لے اور سوار ہو جائے اور تین دن کے روزے رکھ لے۔“ «بلوغ المرام/حدیث: 1182»
تخریج: «أخرجه البخاري، جزاء الصيد، باب من نذر المشي إلي الكعبة، حديث:1866، ومسلم، النذر، باب من نذرأن يمشي إلي الكعبة، حديث:1644، وحديث: "أن الله لا يصنع بشقاء أختك شيئًا" أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3293، 3295، والترمذي، النذور والأيمان، حديث:1544، والنسائي، الأيمان والنذور، حديث:3845، وابن ماجه، الكفارات، حديث:2134، وأحمد:4 /145 وسنده ضعيف، عبيدالله بن زحر ضعيف، ضعفه الجمهور، وتابعه بكربن سوادة في رواية ابن لهيعة أخرجه أحمد:4 /147، وابن لهيعة ضعيف من جهة سوء حفظه.»
تشریح: روایت کے آخری حصے «إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَصْنَعُ بِشَقَآئِ …» کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے «وَلْتَصُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ» جملے کے علاوہ باقی روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور انھوں نے مذکورہ حدیث کے پہلے حصے کو شاہد بنایا ہے جس میں روزے رکھنے کا ذکر نہیں ہے اور وہ صحیحین کی روایت ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت اس جملے «وَلْتَصُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ»”اور تین دن کے روزے رکھ لے۔ “ کے علاوہ صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۸ /۲۱۸. ۲۲۱‘ والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۲۸ /۵۴۰. ۵۴۲)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1182
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1544
´سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔` عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بہن نے نذر مانی ہے کہ وہ چادر اوڑھے بغیر ننگے پاؤں چل کر خانہ کعبہ تک جائے گی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہاری بہن کی سخت کوشی پر کچھ نہیں کرے گا! ۱؎ اسے چاہیئے کہ وہ سوار ہو جائے، چادر اوڑھ لے اور تین دن کے روزے رکھے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1544]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی اس مشقت کا کوئی ثواب اسے نہیں دے گا۔
2؎: اس حدیث کی روسے اگر کسی نے بیت اللہ شریف کی طرف پیدل یا ننگے پاؤں چل کر جانے کی نذر مانی ہوتو ایسی نذ ر کا پورا کرنا ضروری اور لازم نہیں، اور اگر کسی عورت نے ننگے سرجانے کی نذر مانی ہوتو اس کو تو پوری ہی نہیں کرنی ہے کیوں کہ یہ معصیت اورگناہ کا کام ہے۔
نوٹ: (اس کے راوی ”عبیداللہ بن زحر“ سخت ضعیف ہیں، اس میں ”روزہ والی بات“ ضعیف ہے، باقی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1544
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1866
1866. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میری بہن نے بیت اللہ تک پیدل جانے کی نذرمانی اور مجھے حکم دیاکہ نبی ﷺ سے اس کے متعلق سوال کروں، چنانچہ میں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہوجائے۔“ حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کرنے والے حضرت ابو الخیر ہیں جو ان سے جدانہ ہوتے تھے۔ اس کے بعد امام بخاری ؓ نے اس حدیث کی ایک دوسری سند ذکر کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1866]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث میں مذکور عقبہ بن عامر ؓ کی بہن کا نام ام حبان بنت عامر بتایا گیا ہے، حالانکہ اس کے بھائی کا نام عقبہ بن عامر بن نابی ہے جو انصاری ہیں اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور اس کے خاوند کا نام حرام بن محیصہ ہے۔ کتب حدیث میں اس عقبہ کی کوئی روایت نہیں ہے جبکہ حدیث میں جس عقبہ بن عامر کا ذکر ہے اس سے مراد وہ عقبہ ہیں جن کا جہینہ قبیلے سے تعلق ہے اور کتب حدیث میں ان سے کئی ایک احادیث مروی ہیں۔ یہ انصاری نہیں اور نہ غزوۂ بدر میں شریک ہی ہوئے ہیں، لہذا ان کی بہن کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ اس نے نذر مانی تھی کہ اوڑھنی کے بغیر، پیدل، ننگے پاؤں بیت اللہ جائے گی، نیز یہ عورت بھاری بھر کم، کمزور اور چلنے سے عاجز تھی۔ اس سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اپنے سر پر اوڑھنی لے، سوار ہو جائے اور نذر کے کفارے کے طور پر تین دن کے روزے رکھے۔ “(سنن النسائي، الأیمان والنذور، حدیث: 3846) بعض روایات میں اسے اونٹ ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ (مسندأحمد: 201/4) اس کی تفصیل کتاب الأیمان والنذور میں بیان کی جائے گی۔ (فتح الباري: 103/4) إن شاءاللہ۔ (2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ابو الخیر کا حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے سماع ثابت کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1866