سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
63. بَابُ : تَرْكِ الزِّينَةِ لِلْحَادَّةِ الْمُسْلِمَةِ دُونَ الْيَهُودِيَّةِ وَالنَّصْرَانِيَّةِ
63. باب: سوگ منانے والی مسلمان عورت عدت کے ایام میں زیب و زینت ترک کر دے گی، یہود یہ اور نصرانیہ عورت کیا کرے؟ اس سے کوئی غرض نہیں۔
Chapter: Putting On Adornment Is For The Grieving Muslim Woman, Not For Jewish Or Christian Women
حدیث نمبر: 3563
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع واللفظ له، قال: انبانا ابن القاسم، عن مالك، عن عبد الله بن ابي بكر، عن حميد بن نافع، عن زينب بنت ابي سلمة انها اخبرته بهذه الاحاديث الثلاثة، قالت زينب: دخلت على ام حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم حين توفي ابوها ابو سفيان بن حرب، فدعت ام حبيبة بطيب فدهنت منه جارية، ثم مست بعارضيها، ثم قالت: والله ما لي بالطيب من حاجة غير اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج اربعة اشهر وعشرا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قالت زينب: ثم دخلت على زينب بنت جحش حين توفي اخوها، وقد دعت بطيب ومست منه، ثم قالت: والله ما لي بالطيب من حاجة غير اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على المنبر:" لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج اربعة اشهر وعشرا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وقالت زينب: سمعت ام سلمة، تقول: جاءت امراة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن ابنتي توفي عنها زوجها، وقد اشتكت عينها، افاكحلها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا، ثم قال:" إنما هي اربعة اشهر وعشرا، وقد كانت إحداكن في الجاهلية ترمي بالبعرة عند راس الحول"، قال حميد: فقلت لزينب: وما ترمي بالبعرة عند راس الحول؟ قالت زينب: كانت المراة إذا توفي عنها زوجها دخلت حفشا، ولبست شر ثيابها، ولم تمس طيبا ولا شيئا حتى تمر بها سنة، ثم تؤتى بدابة حمار او شاة او طير فتفتض به، فقلما تفتض بشيء إلا مات، ثم تخرج، فتعطى بعرة فترمي بها، وتراجع بعد ما شاءت من طيب او غيره، قال مالك: تفتض تمسح به في حديث محمد، قال مالك: الحفش الخص.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ الثَّلَاثَةِ، قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَدَعَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً، ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَتْ زَيْنَبُ: ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، وَقَدْ دَعَتْ بِطِيبٍ وَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ:" لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَقَالَتْ زَيْنَبُ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنَهَا، أَفَأَكْحُلُهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ"، قَالَ حُمَيْدٌ: فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ: وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ؟ قَالَتْ زَيْنَبُ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا، وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا وَلَا شَيْئًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ، ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَيْرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ، فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْءٍ إِلَّا مَاتَ، ثُمَّ تَخْرُجُ، فَتُعْطَى بَعْرَةً فَتَرْمِي بِهَا، وَتُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ، قَالَ مَالِكٌ: تَفْتَضُّ تَمْسَحُ بِهِ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدٍ، قَالَ مَالِكٌ: الْحِفْشُ الْخُصُّ.
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے انہوں نے یہ (آنے والی) تین حدیثیں بیان کیں: ۱- زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہو گیا تو میں ان کے پاس (تعزیت میں) گئی، (میں نے دیکھا کہ) انہوں نے خوشبو منگوائی، (پہلے) لونڈی کو لگائی پھر اپنے دونوں گالوں پر ملا پھر یہ بھی بتا دیا کہ قسم اللہ کی مجھے خوشبو لگانے کی کوئی حاجت اور خواہش نہ تھی مگر (میں نے یہ بتانے کے لیے لگائی ہے کہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے شوہر کے انتقال کرنے پر، کہ اس پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی۔ (اس لیے میں اپنے والد کے مر جانے پر تین دن کے بعد سوگ نہیں منا رہی ہوں)۔ ۲- زینب (زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں: جب ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا انتقال ہو گیا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں سے خود لگایا پھر (مسئلہ بتانے کے لیے) کہا: قسم اللہ کی مجھے خوشبو لگانے کی کوئی حاجت نہ تھی مگر یہ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے (و اعلان کرتے) ہوئے سنا ہے: جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ شوہر کے سوا کسی کے مرنے پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، شوہر کے مرنے پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی۔ ۳- زینب (زینب بنت ابی سلمہ) کہتی ہیں: میں نے (ام المؤمنین) ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیٹی کا شوہر انتقال کر گیا ہے اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، پھر آپ نے فرمایا: ارے یہ تو صرف چار مہینے دس دن ہیں (جاہلیت میں کیا ہوتا تھا وہ بھی دھیان میں رہے) زمانہ جاہلیت میں تمہاری (بیوہ) عورت (سوگ کا) سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی تھی۔ حمید بن نافع کہتے ہیں: میں نے ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا سے کہا: سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکنے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا عورت کا شوہر جب انتقال کر جاتا تھا تو اس کی بیوی تنگ و تاریک جگہ (چھوٹی کوٹھری) میں جا رہتی اور خراب سے خراب کپڑا پہن لیتی تھی اور سال پورا ہونے تک نہ خوشبو استعمال کرتی اور نہ ہی کسی چیز کو ہاتھ لگاتی۔ (سال پورا ہو جانے کے بعد) پھر کوئی جانور گدھا، بکری یا چڑیا اس کے پاس لائی جاتی اور وہ اس سے اپنے جسم اور اپنی شرمگاہ کو رگڑتی اور جس جانور سے بھی وہ رگڑتی (دبوچتی) وہ (مر کر ہی چھٹی پاتا) مر جاتا، پھر وہ اس تنگ تاریک جگہ سے باہر آتی پھر اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی اور وہ اسے پھینک دیتی (اس طرح وہ گویا اپنی نحوست دور کرتی)، اس کے بعد ہی اسے خوشبو وغیرہ جو چاہے استعمال کی اجازت ملتی۔ مالک کہتے ہیں: «تفتض» کا مطلب «تمسح به» کے ہیں (یعنی اس سے رگڑتی)۔ محمد بن سلمہ مالک کہتے ہیں: «حفش»، «خص» کو کہتے ہیں (یعنی بانس یا لکڑی کا جھونپڑا)۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3531 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   صحيح البخاري5345رملة بنت صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا
   صحيح البخاري1280رملة بنت صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاث إلا على زوج فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشرا
   صحيح مسلم3734رملة بنت صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد فوق ثلاث إلا على زوج فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشرا
   صحيح مسلم3725رملة بنت صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا
   جامع الترمذي1195رملة بنت صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاثة أيام إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا
   سنن النسائى الصغرى3557رملة بنت صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله ورسوله أن تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا
   سنن النسائى الصغرى3530رملة بنت صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاثة أيام إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا
   سنن النسائى الصغرى3563رملة بنت صخرلا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3563 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3563  
اردو حاشہ:
(1) مسئلہ باب کے لیے دیکھیے حدیث: 3531، 3532۔
(2) کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ میرا خاوند تو فوت ہو چکا ہے‘نیز تین دن سوگ کے بعد خوشبو لگانا ضروری بھی نہیں البتہ سوگ کا شبہ ختم کرنے کے لیے خوشبو وغیرہ لگا لینا مستحب ہے(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر 3531‘3532۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3563   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3557  
´شوہر کی وفات پر کتابیہ سے سوگ کے ساقط ہو جانے کا بیان۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی منبر سے فرماتے ہوئے سنا: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے سوائے شوہر کے، اس (کے مرنے) پر چار ماہ دس دن سوگ منائے گی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3557]
اردو حاشہ:
: باب پر استدلال ظاہر الفاظ سے ہے کیونکہ اسلامی شریعت مسلمانوں کے لیے ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا موقف بھی یہی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور جمہور کا موقف یہ ہے کہ اس پر بھی سوگ واجب ہے لیکن اس حدیث سے پہلے موقف کی تائید ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3557   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1280  
1280. حضرت زینب بنت ابی سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب علاقہ شام سے حضر ت ابو سفیان ؓ کے فوت ہونے کی اطلاع آئی تو حضرت ام حبیبہ ؓ نے تیسرے روز زرد رنگ کی خوشبو منگوائی اور اسے اپنے ہاتھوں اور رخساروں پر لگایا اور فرمایا: اگرچہ مجھے اس کی قطعاً ضرورت نہ تھی، لیکن میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سناہے: جو عورت اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین رکھتی ہو اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، لیکن اسے اپنے خاوند پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرنا چاہیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1280]
حدیث حاشیہ:
جب کہ میں خود رانڈ بیوہ اوربڑھیا ہوں، میں نے اس حدیث پر عمل کرنے کے خیال سے خوشبو کا استعمال کرلیا۔
قال بن حجر:
هو وهم لأنه مات بالمدینة بلا خلاف وإنما الذي مات بالشام أخوها یزید بن أبي سفیان والحدیث في مسندي ابن أبي شیبة والدارمي بلفظ جاء نعي لأخي أم حبیبة أوحمیم لها ولأحمد نحوہ فقوی کونه أخاها۔
یعنی علامہ ابن حجرؒ نے کہا کہ یہ وہم ہے۔
اس لیے کہ ابوسفیان ؓ کا انتقال بلا اختلاف مدینہ میں ہوا ہے۔
شام میں انتقال کرنے والے ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان تھے۔
مسند ابن ابی شیبہ اور دارمی اورمسند احمد وغیرہ میں یہ وضاحت موجود ہے۔
اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ صرف بیوی اپنے خاوند پر چار ماہ دس دن سوگ کرسکتی ہے اور کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے۔
بیوی کے خاوند پر اتنا سوگ کرنے کی صورت میں بھی بہت سے اسلامی مصالح پیش نظر ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1280   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5345  
5345. سیدنا زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ سیدہ ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہا سے بیان کرتی ہیں کہ جب انہیں اپنے والد گرامی (سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ) کے فوت ہونے کی اطلاع ملی تو (تین دن کے بعد) انہوں نے خوشبو منگوائی اور اپنے دونوں بازؤں پر لگائی۔ پھر فرمایا: مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی لیکن میں نبی ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: جو عورت اللہ پر ایمان اور روز آخرت پر یقین رکھتی ہو وہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے البتہ شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5345]
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ شوہر کے سوا کسی اور کے لیے تین دن سے زیادہ ماتم کرنے والی عورتیں ایمان سے محروم ہیں۔
پس ان کو اللہ سے ڈر کر اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5345   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5345  
5345. سیدنا زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ سیدہ ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہا سے بیان کرتی ہیں کہ جب انہیں اپنے والد گرامی (سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ) کے فوت ہونے کی اطلاع ملی تو (تین دن کے بعد) انہوں نے خوشبو منگوائی اور اپنے دونوں بازؤں پر لگائی۔ پھر فرمایا: مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی لیکن میں نبی ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: جو عورت اللہ پر ایمان اور روز آخرت پر یقین رکھتی ہو وہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے البتہ شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5345]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شوہر کے علاوہ کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا حرام ہے۔
ایسی عورتیں ایمان سے محروم ہیں جو اس حکم کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
(2)
عنوان میں عدت کا ذکر تھا اور اس حدیث میں ہے کہ عدت گزارنے والی عورت حدیث میں بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عدت کے ایام پورے کرے، اس کی خلاف ورزی کر کے خود کو ایمان سے محروم نہ کرے۔
(عمدة القاري: 357/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5345   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.