ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے تو میں پاک نہیں رہ پاتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، البتہ صرف ان دنوں اور راتوں کے بقدر چھوڑ دو جن میں تم حائضہ رہتی ہو، پھر غسل کر لو اور لنگوٹ کس کر نماز پڑھو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 209 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، انظر الحديث السابق (209) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 323
تنظر عدد الليالي والأيام التي كانت تحيض من الشهر قبل أن يصيبها الذي أصابها فلتترك الصلاة قدر ذلك من الشهر فإذا خلفت ذلك فلتغتسل ثم لتستثفر بالثوب ثم لتصلي
تلبث إحدانا أيام حيضها ثم تطهر فتنظر الثوب الذي كانت تقلب فيه فإن أصابه دم غسلناه وصلينا فيه وإن لم يكن أصابه شيء تركناه ولم يمنعنا ذلك من أن نصلي فيه وأما الممتشطة فكانت إحدانا تكون ممتشطة فإذا اغتسلت لم تنقض ذلك ولكنها تحفن على رأسها ثلاث حفنات فإذا رأ
تنظر عدة الليالي والأيام التي كانت تحيضهن من الشهر قبل أن يصيبها الذي أصابها فلتترك الصلاة قدر ذلك من الشهر فإذا خلفت ذلك فلتغتسل ثم لتستثفر بثوب ثم لتصل فيه
تنظر إلى عدد الليالي والأيام التي كانت تحيضهن من الشهر قبل أن يصيبها الذي أصابها فلتترك الصلاة قدر ذلك من الشهر فإذا خلفت ذلك فلتغتسل ثم لتستثفر بثوب ثم لتصلي
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 274
´عورت کے مستحاضہ ہونے کا بیان اور ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ مستحاضہ اپنے حیض کے ایام کے بقدر نماز چھوڑ دے۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ کا خون آتا تھا، تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عورت کو چاہیئے کہ اس بیماری کے لاحق ہونے سے پہلے مہینے کی ان راتوں اور دنوں کی تعداد کو جن میں اسے حیض آتا تھا ذہن میں رکھ لے اور (ہر) ماہ اسی کے بقدر نماز چھوڑ دے، پھر جب یہ دن گزر جائیں تو غسل کرے، پھر کپڑے کا لنگوٹ باندھ لے پھر اس میں نماز پڑھے۔“[سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 274]
274۔ اردو حاشیہ: ہر بالغ عورت کو ماہانہ نظام کے تحت جو خون آتا ہے اسے حیض کہتے ہیں اور یہ علامت ہوتی ہے کہ اس کا رحم خالی ہے۔ ابتدائے بلوغت ہی سے ہر عورت کو اپنی عادت کا بالعموم تجربہ ہو جاتا ہے۔ عام طور پر یہ خون سیاہی مائل ہوتا ہے لیکن اگر اس نظام میں خرابی آ جائے اور خون کا آنا عادت سے بڑھ جائے تو اسے استحاضہ کہتے ہیں اور اس کی رنگت بھی مختلف سی ہوتی ہے۔ بچے کی ولادت پر آنے والے خون کو نفاس کہتے ہیں۔ حیض اور نفاس کے ایام ناپاکی کے ایام شمار ہوتے ہیں مگر استحاضہ کے ایام طہارت کے شمار کیے جاتے ہیں اس بنا پر کہ یہ ایک مرض کی کیفیت ہوتی ہے۔ استحاضہ کا مسئلہ یوں ہے کہ اگر عورت کو اپنے حیض کی تواریخ معلوم اور اس کے ایام متعین ہوں اور یہ عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ ان متعین دنوں کی نمازیں چھوڑ دے اور شوہر بھی اس سے علیحدہ رہے۔ اگر ایام اور تواریخ میں فرق آتا رہتا ہو تو سیاہی مائل خون کے ایام کو حیض کے ایام شمار کیا جائے، لیکن اگر تواریخ اور ایام غیر متعین اور رنگت سے بھی امتیاز نہ ہو رہا ہو یا ابتدا ہی سے استحاضے کا عارضہ لاحق ہو گیا ہو تو چھ، سات دن یا اپنے عزیز و اقارب کی خواتین کی عادات کے مطابق حیض کے دن متعین کر لیے جائیں۔ ان دنوں میں نماز، روزہ اور مجامعت سے پرہیز کیا جائے۔ ان دنوں کے پورے ہونے پر غسل کر کے نماز، روزہ شروع کر دے اور بعد ازاں ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے۔ اگر غسل کی ہمت ہو تو بہت افضل ہے۔ شوہر کو مباشرت کی بھی اجازت ہو گی۔ استحاضہ کی احادیث کا اس مختصر تمہید کی روشنی میں مطالعہ کیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 274
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 359
´عورت حیض میں پہنے ہوئے کپڑوں کو دھلے اس کے حکم کا بیان۔` بکار بن یحییٰ کی دادی سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی تو قریش کی ایک عورت نے ان سے حیض کے کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا، تو ام سلمہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیں حیض آتا تو ہم میں سے (جسے حیض آتا) وہ اپنے حیض کے دنوں میں ٹھہری رہتی، پھر وہ حیض سے پاک ہو جاتی تو ان کپڑوں کو جن میں وہ حیض سے ہوتی تھی دیکھتی، اگر ان میں کہیں خون لگا ہوتا تو ہم اسے دھو ڈالتے، پھر اس میں نماز پڑھتے، اور اگر ان میں کوئی چیز نہ لگی ہوتی تو ہم انہیں چھوڑ دیتے اور ہمیں ان میں نماز پڑھنے سے یہ چیز مانع نہ ہوتی، رہی ہم میں سے وہ عورت جس کے بال گندھے ہوتے تو وہ جب غسل کرتی تو اپنی چوٹی نہیں کھولتی، البتہ تین لپ پانی لے کر اپنے سر پر ڈالتی، جب وہ بال کی جڑوں تک تری دیکھ لیتی تو ان کو ملتی، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتی۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 359]
359. اردو حاشیہ: یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے تاہم یہی بات دیگر تمام روایات میں بھی بیان کی گئی ہے، جو صحیح ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 359
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 209
´حیض سے غسل کرنے کا بیان۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت کو کثرت سے خون آتا تھا، تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ مہینہ کے ان دنوں اور راتوں کو شمار کر لے جس میں اس بیماری سے جو اسے لاحق ہوئی ہے پہلے حیض آیا کرتا تھا، پھر ہر مہینہ اسی کے برابر نماز چھوڑ دے، اور جب یہ دن گزر جائیں تو غسل کرے، پھر لنگوٹ باندھے، پھر نماز پڑھے۔“[سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 209]
209۔ اردو حاشیہ: ➊ ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے، لیکن یہ روایت معناً صحیح ہے کیونکہ دیگر احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے، نیز حدیث کے بعض حصے کے شواہد کا خود محقق کتاب نے بھی اعتراف کیا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی اس کی شاہد بنتی ہے۔ دیکھیے: [صحيح مسلم، الحيض، حديث: 333] مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [الموسوعة الحديثية مسند أحمد: 123/44] ➋ جس عورت کو پہلے باقاعدگی سے حیض آتا تھا بعد میں استحاضہ (بےقاعدہ خون) شروع ہوا تو وہ انھی دنوں کو حیض شمار کرے جن دنوں میں اسے پہلے حیض آتا تھا، انہی میں نماز چھوڑے۔ اس کے علاوہ باقی دنوں میں خون آنے کے باوجود نماز وغیرہ پڑھتی رہے، البتہ حیض کے دن ختم ہونے پر وہ غسل کرے، مزید غسل کی ضرورت نہیں۔ اور اگر اسے شروع ہی سے بےقاعدہ خون آتا رہا ہے تو وہ رنگ دیکھ کر حیض اور استحاضہ کے درمیان فرق کرے، لیکن اگر رنگ سے بھی پہچان نہ ہو تو وہ مہینے میں سے کوئی چھ یا سات دن حیض سمجھ لے یا قریبی رشتہ دار خواتین کی ماہانہ عادت کو اپنا لیا کرے، پھر غسل کر کے نماز شروع کرے۔ ➌ لنگوٹ اس لیے باندھنا ہو گا کہ خون کے قطرے کپڑوں اور جسم کو خراب نہ کریں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 209
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث623
´مستحاضہ جس کے حیض کی مدت استحاضہ والے خون سے پہلے متعین ہو اس کے حکم کا بیان۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے، پاک نہیں رہتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ جن دنوں میں تمہیں حیض آتا ہے اتنے دن نماز چھوڑ دو“، ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی حدیث میں کہا: ”ہر مہینہ سے بقدر ایام حیض نماز چھوڑ دو، پھر غسل کرو، اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر نماز ادا کرو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 623]
اردو حاشہ: (1) یہ حکم اس صورت میں ہے جب عادت کی مقدار معلوم ہو۔
(2) استحاضہ کی طرح اگر کسی کو اور کوئی ایسی بیماری ہے جس میں اس کا وضو برقرار نہیں رہتا۔ مثلاًہوا کا بار بار خارج ہونا یا پیشاب کے قطروں کا آنا تو ایسا شخص شرعاً معذور ہے۔ وہ نماز نہ چھوڑے بلکہ ہرنماز کے لیے نیا وضو کرے اور اس سے ایک نماز سے متعلقہ فرائض، سنن اور نوافل ادا کرے۔
(3) یہ روایت بھی صحیح روایات کے ہم معنی ہونے کی وجہ سے صحیح ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 623