(مرفوع) اخبرني عبيد الله بن سعد بن إبراهيم بن سعد، قال: حدثنا عمي، قال: حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: اخبرني محمد بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، ان عائشة، قالت: ارسل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم , إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاستاذنت عليه وهو مضطجع معي في مرطي، فاذن لها، فقالت: يا رسول الله , إن ازواجك ارسلنني إليك يسالنك العدل في ابنة ابي قحافة , وانا ساكتة، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اي بنية , الست تحبين من احب؟". قالت: بلى. قال:" فاحبي هذه". فقامت فاطمة حين سمعت ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم , فرجعت إلى ازواج النبي صلى الله عليه وسلم , فاخبرتهن بالذي قالت والذي قال لها، فقلن لها: ما نراك اغنيت عنا من شيء , فارجعي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقولي له: إن ازواجك ينشدنك العدل في ابنة ابي قحافة. قالت فاطمة: لا والله , لا اكلمه فيها ابدا. قالت عائشة: فارسل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم زينب بنت جحش إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي التي كانت تساميني من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم في المنزلة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم , ولم ار امراة قط خيرا في الدين من زينب , واتقى لله عز وجل , واصدق حديثا , واوصل للرحم , واعظم صدقة , واشد ابتذالا لنفسها في العمل الذي تصدق به , وتقرب به ما عدا سورة من حدة كانت فيها تسرع منها الفيئة , فاستاذنت على رسول الله صلى الله عليه وسلم , ورسول الله صلى الله عليه وسلم مع عائشة في مرطها على الحال التي كانت دخلت فاطمة عليها , فاذن لها رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالت: يا رسول الله , إن ازواجك ارسلنني يسالنك العدل في ابنة ابي قحافة , ووقعت بي فاستطالت , وانا ارقب رسول الله صلى الله عليه وسلم , وارقب طرفه هل اذن لي فيها فلم تبرح زينب حتى عرفت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يكره ان انتصر , فلما وقعت بها لم انشبها بشيء حتى انحيت عليها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنها ابنة ابي بكر". (مرفوع) أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَيْهِ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ مَعِي فِي مِرْطِي، فَأَذِنَ لَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي إِلَيْكَ يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ , وَأَنَا سَاكِتَةٌ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيْ بُنَيَّةُ , أَلَسْتِ تُحِبِّينَ مَنْ أُحِبُّ؟". قَالَتْ: بَلَى. قَالَ:" فَأَحِبِّي هَذِهِ". فَقَامَتْ فَاطِمَةُ حِينَ سَمِعَتْ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَرَجَعَتْ إِلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَخْبَرَتْهُنَّ بِالَّذِي قَالَتْ وَالَّذِي قَالَ لَهَا، فَقُلْنَ لَهَا: مَا نَرَاكِ أَغْنَيْتِ عَنَّا مِنْ شَيْءٍ , فَارْجِعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُولِي لَهُ: إِنَّ أَزْوَاجَكَ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ. قَالَتْ فَاطِمَةُ: لَا وَاللَّهِ , لَا أُكَلِّمُهُ فِيهَا أَبَدًا. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَمْ أَرَ امْرَأَةً قَطُّ خَيْرًا فِي الدِّينِ مِنْ زَيْنَبَ , وَأَتْقَى لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَأَصْدَقَ حَدِيثًا , وَأَوْصَلَ لِلرَّحِمِ , وَأَعْظَمَ صَدَقَةً , وَأَشَدَّ ابْتِذَالًا لِنَفْسِهَا فِي الْعَمَلِ الَّذِي تَصَدَّقُ بِهِ , وَتَقَرَّبُ بِهِ مَا عَدَا سَوْرَةً مِنْ حِدَّةٍ كَانَتْ فِيهَا تُسْرِعُ مِنْهَا الْفَيْئَةَ , فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَائِشَةَ فِي مِرْطِهَا عَلَى الْحَالِ الَّتِي كَانَتْ دَخَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا , فَأَذِنَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ , وَوَقَعَتْ بِي فَاسْتَطَالَتْ , وَأَنَا أَرْقُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَرْقُبُ طَرْفَهُ هَلْ أَذِنَ لِي فِيهَا فَلَمْ تَبْرَحْ زَيْنَبُ حَتَّى عَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَكْرَهُ أَنْ أَنْتَصِرَ , فَلَمَّا وَقَعْتُ بِهَا لَمْ أَنْشَبْهَا بِشَيْءٍ حَتَّى أَنْحَيْتُ عَلَيْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، انہوں نے آپ سے اجازت طلب کی، آپ میرے ساتھ چادر میں لیٹے ہوئے تھے، آپ نے انہیں اجازت دی، وہ بولیں: اللہ کے رسول! آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے وہ ابوقحافہ کی بیٹی (عائشہ) کے سلسلے میں آپ سے ۱؎ عدل کا مطالبہ کر رہی ہیں، اور میں خاموش ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے میری بیٹی! کیا تم اس سے محبت نہیں کرتیں جس سے مجھے محبت ہے؟ وہ بولیں: کیوں نہیں! آپ نے فرمایا: تو تم بھی ان سے محبت کرو، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ بات سنی تو اٹھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس واپس آ کر انہیں وہ ساری بات بتائی جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی اور جو آپ نے ان (فاطمہ) سے کہی۔ وہ سب بولیں: ہم نہیں سمجھتے کہ تم نے ہمارا کام کر دیا، تم پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو: آپ کی بیویاں آپ سے ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے عدل کی اپیل کرتی ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے سلسلے میں آپ سے کبھی کوئی بات نہیں کروں گی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زینب بنت جحش کو بھیجا اور زینب ہی ایسی تھیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک میرے برابر کا درجہ رکھتی تھیں۔ میں نے کبھی بھی دین کے معاملے میں بہتر، اللہ سے ڈرنے والی، سچ بات کہنے والی، صلہ رحمی کرنے والی، بڑے بڑے صدقات کرنے والی، صدقہ و خیرات اور قرب الٰہی کے کاموں میں خود کو سب سے زیادہ کمتر کرنے والی زینب سے بڑھ کر کوئی عورت نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ وہ مزاج کی تیز طرار تھیں لیکن ان کا غصہ بہت جلد رفع ہو جاتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ چادر میں اسی طرح تھے کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، وہ بولیں: اللہ کے رسول! آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ وہ سب ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے عدل و انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں اور وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں اور خوب زبان درازی کی، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھی اور آپ کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ آیا آپ مجھے بھی ان کا جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں، زینب رضی اللہ عنہا ابھی وہیں پر تھیں کہ میں نے اندازہ کر لیا کہ اگر میں انہیں جواب دوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا نہیں لگے گا۔ چنانچہ جب میں نے انہیں برا بھلا کہا تو میں نے انہیں ذرا بھی ٹکنے نہیں دیا یہاں تک کہ میں ان سے آگے نکل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ابوبکر کی بیٹی ہے“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی قلبی محبت میں تمام ازواج مطہرات برابر ہوں یا لوگ اپنے ہدایا بھیجنے میں ساری ازواج مطہرات کا خیال رکھیں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3396
اردو حاشہ: (1) آپ کی ازواج مطہرات کو آپ پر یہ اعتراض تھا کہ آپ حضرت عائشہؓ سے محبت زیادہ فرماتے ہیں‘ ورنہ آپ باری اور نفقہ وغیرہ میں پورا پورا انصاف فرماتے تھے۔ باقی رہی دلی محبت‘ تو وہ غیر اختیاری چیز ہے۔ اس کے متعلق منجانب اللہ کوئی گرفت ہوسکی ہے نہ عوام الناس کے نزدیک۔ ازواج مطہرات کو سوکن ہونے کے ناتے زیادہ محسوس ہوتا تھا‘ ورنہ کوئی اعتراض کی بات نہیں تھی۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے‘ سابقہ حدیث: 3395) (2)”ابوقجافہ کی بیٹی“ یہ بطور کسر شان کہا کیونکہ عرب جب کسی کی حقارت ظاہر کرنا چاہتے تھے تو اسے غیر مشہور باپ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ ابوقحافہ دراصل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد کا نام تھا جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ باپ کی بجائے دادا کی طرف نسبت کی۔ (3)”میرے برابر مرتبہ رکھتی تھیں“ کیونکہ وہ رسول اللہﷺ کے خاندان سے تھیں۔ آپ کی پھوپھی کی بیٹی تھیں‘ نیز ان سے نکاح اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ہوا تھا۔ (4)”بدلہ لوں“ مراد گالی گلوچ نہیں بلکہ الزام تراشی اور نکتہ چینی ہے۔ باوجود ان کے خلاف اس قدر بولنے کے حضرت عائشہؓ نے جو تعریف حضرت زینبؓ کی فرمائی اس سے زیادہ ممکن نہیں اور جب ان کی کمزوری (تیز روشنی) کا ذکر فرمایا تھا تو ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ یہ تیزی بھی جلد ہی ختم ہوجایا کرتی تھی۔ قربان جائیں ام المومنین کے اخلاق عالیہ وفاضلہ پر۔ ان خوبیوں کی بدولت ہی تو رسول اللہﷺ کو ان سے اتنی محبت تھی۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْهن وَأَرْضَاهن۔ (5)”ابوبکر کی بیٹی ہے۔“ تعریف فرمائی ان کے حسن خلق‘ صبروبرداشت اور جچا تلا کلام کرنے اور فصاحت وبلاغت کی جس نے حضرت زینبؓ کو چپ کرنے پر مجبور کردیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں بھی یہ اوصاف بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے‘ اس لیے ان کی طرف نسبت فرمائی ورنہ یہ بھی فرما سکتے تھے ”یہ عائشہ ہے۔“ (6) ازواج مطہرات کے یہ اعتراضات اور آپس میں کش مکش ابتدائی دور میں تھی۔ جوں جوں وہ صحبت نبوت سے فیض یافتہ ہوتی گئیں‘ ان کی قلبی تطہیروتزیین ہوتی گئی‘ چنانچہ پھر نہ تو کبھی انہوں نے آپ پر کوئی اعتراض کیا ‘ نہ کوئی مطالبہ کیا اور نہ آپس میں کش مکش رہی۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْهن وَأَرْضَاهن۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3396