(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن منصور، قال: انبانا عبد الرحمن، قال: حدثنا سفيان، عن عبد العزيز، عن تميم بن طرفة، عن عدي بن حاتم، قال: تشهد رجلان عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال احدهما: من يطع الله ورسوله فقد رشد، ومن يعصهما فقد غوى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بئس الخطيب انت". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: تَشَهَّدَ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشِدَ، وَمَنْ يَعْصِهِمَا فَقَدْ غَوَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ".
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (خطبہ) تشہد پڑھا، ان میں سے ایک نے کہا: «من يطع اللہ ورسوله فقد رشد ومن يعصهما فقد غوى» تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بہت برے خطیب ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ تم نے «من يعصهما» کہہ کر اللہ و رسول کو ایک ہی درجہ میں کر دیا۔ بہتر تھا کہ جس طرح «من يطع الله و رسوله» کہا ایسے ہی «من يعص الله و رسوله» کہتے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت یاب ہوا اور جس نے اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا۔ بعض احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود «ومن یعصہما» کہا ہے تو اس سلسلہ میں صحیح اور درست بات یہ ہے کہ ایسا کرنا آپ کے علاوہ کے لیے منع ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ و رسول کو ایک ہی ضمیر میں جمع کرنا اس سے دونوں کو برابری کا درجہ دینے کا وہم نہیں ہو سکتا اس لیے کہ آپ جس منصب و مقام پر فائز ہیں وہاں اس طرح کے وہم کی گنجائش ہی نہیں۔ جب کہ دوسرے اس وہم سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3281
اردو حاشہ: ”تو برا خطیب ہے“ آپ کا اشارہ اللہ اور اس کے رسول کو ایک ضمیر (یَعْصِھِمَا کی ھِمَا) ضمیر میں جمع کرنے کی طرف ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں اس کی صراحت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ اس طرح کہہ: [وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ]”جو اللہ اور اس کے رسولﷺکی نافرمانی کرے۔“(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:۔870) اسی طرح آپ کے ایک خطبے میں بعینہٖ یہی الفاظ ہیں: [ومن يعصِهِما فإنَّه لا يضرُّ إلّا نفسَهُ ](سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1097) نیز قرآن مجید میں ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ﴾ میں بھی ضمیر مشترک ہے، اس کے باوجود آپ نے یہاں تثنیہ کی ضمیر لانے پر اظہار ناراضی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وعظ تقریر کے موقع پر ابہام کی بجائے توضحیح وتفسیر کی ضرورت ہے۔ اس خطیب نے یہاں ابہام کا مظاہرہ کیا جسے آپ نے پسند فرمایا۔ ا س سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اختصار بھی اگرچہ ناجائز ہے لیکن عوام کے سامنے مختصر بات کرنے کی بجائے واضح الفاط میں بات کی جائے، اس میں کچھ طوالت ہو، تاکہ عوام کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، مزید دیکھیے: (شرح صحیح مسلم للنووي، حدیث: 870)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3281
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1099
´کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ دینے کا بیان۔` عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک خطیب نے خطبہ دیا اور یوں کہا: «من يطع الله ورسوله ومن يعصهما» تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یہاں سے اٹھ جاؤ یا چلے جاؤ تم برے خطیب ہو ۱؎۔“[سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1099]
1099۔ اردو حاشیہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ایک ضمیر تثنیہ سے ذکر کیا جائے یہ خلاف ادب ہے۔ اس میں مساوات کا شبہ ہو سکتا ہے۔ اگر یہ مفہوم ادا کرنا ہو تو «من يعص الله ورسوله» کہا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1099
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4981
´باب:۔۔۔` عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خطیب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خطبہ دیا، تو اس نے (خطبہ میں) کہا: «من يطع الله ورسوله فقد رشد ومن يعصهما» جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے، وہ راہ راست پر ہے اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرتا ہے ... (ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ) آپ نے فرمایا: ”کھڑے ہو جاؤ“ یا یوں فرمایا: چلے جاؤ تم بہت برے خطیب ہو ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4981]
فوائد ومسائل: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کو ایک ہی کلمہ اور ضمیر تثنیہ میں جمع کرتے ہوئے یوں کہنا: (ومن يعصهما) جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی۔ خلاف ادب شمار کیاگیا ہے۔ ان کو جدا جدا کر کے (ورسوله) کہنا چاہئے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4981
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2010
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں خطاب کیا اور اس میں کہا: جو اللہ اور اس کے رسو ل کی اطاعت کرتا ہے اس نے رشدوہدایت پا لی اور جو ان کی نافرمانی کرے گا یا جس نے ان دونوں کا نافرمانی کی وہ بھٹک گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو بہت برا خطیب ہے، یوں کہو، جس نے اللہ کی اور اس کے ر سول کی نافرمانی کی (وہ گمراہ ہوا۔)“ ابن... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2010]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: غوي کی واؤ پر زبر اور زیر دونوں پڑھے گئے اور فصیح لغت کی رو سے زبر صحیح ہے اور اس کا معنی ہے برائی اور شر میں انہماک و مشغولیت۔ فوائد ومسائل: خطبہ میں تعلیم کے مقابلہ میں طوالت ہوتی ہے۔ اور اس میں ہر قسم کے لوگ ہیں۔ اس لیے وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے خطیب کو اللہ اور اس کے رسول کے لیے الگ الگ ضمیر لانی چاہیے۔ نیزمعصیت میں ضمیر کو اکٹھا کرنے کی صورت میں یہ وہم لاحق ہو سکتا ہے کہ نافرمانی وہ ہے جو بیک وقت دونوں کی نافرمانی ہو، حالانکہ نافرمانی اللہ اور اس کے رسول کی الگ الگ بھی ہو سکتی ہے جس طرح اللہ کی نافرمانی جرم اورگناہ ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی بھی الگ طور پر جرم اورگناہ ہے۔ ہاں ان کی اطاعت اور محبت میں دوئی ممکن نہیں ہے۔ ایک کی محبت واطاعت دوسرے کی اطاعت ومحبت کو مستلزم ہے۔ اس لیے ادب واحترام اور تعظیم وتوقیر کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ اور رسول کی معصیت کے سلسلہ میں الگ الگ تذکرہ ہو، ہاں تعلیم کے موقع پر یا ایسے محل میں جہاں غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ تو پھر مفرد ضمیر (دونوں کے لیے ایک ضمیر) لانا جائز ہے۔ جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حاجۃ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا تھا: (وَمَنْ يَعْصِهِمَا فَإِنَّهُ لَا يَضُرُّ إِلَّا نَفْسَهُ، وَلَا يَضُرُّ اللَّهَ شَيْئًا) جو ان دونوں کی نافرمانی کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ یہ اسلوب آپﷺ نے تعلیم کے موقع پر اختیار فرمایا۔ اور ایسے لوگوں کو مخاطب بنایا جو اللہ اوررسول کے بارے میں کسی بدعقیدگی یا غلط فہمی کا شکار نہیں ہو سکتے تھے۔