(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، قال: حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن انس، قال: لما انقضت عدة زينب، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لزيد:" اذكرها علي" , قال زيد: فانطلقت، فقلت: يا زينب ابشري ارسلني إليك رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرك، فقالت: ما انا بصانعة شيئا حتى استامر ربي، فقامت إلى مسجدها، ونزل القرآن وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل بغير امر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّةُ زَيْنَبَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْدٍ:" اذْكُرْهَا عَلَيَّ" , قَالَ زَيْدٌ: فَانْطَلَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا زَيْنَبُ أَبْشِرِي أَرْسَلَنِي إِلَيْكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُكِ، فَقَالَتْ: مَا أَنَا بِصَانِعَةٍ شَيْئًا حَتَّى أَسْتَأْمِرَ رَبِّي، فَقَامَتْ إِلَى مَسْجِدِهَا، وَنَزَلَ الْقُرْآنُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ بِغَيْرِ أَمْرٍ".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب زینب رضی اللہ عنہا کی عدت پوری ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہا کو ان کے پاس بھیجا کہ جا کر انہیں میرے لیے رشتہ کا پیغام دو۔ زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں گیا اور میں نے کہا: زینب خوش ہو جاؤ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمہارے پاس نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا: میں کچھ نہیں کرنے کی جب تک میں اپنے رب سے مشورہ نہ کر لوں (یہ کہہ کر) وہ اپنے مصلی پر (صلاۃ استخارہ پڑھنے) کھڑی ہو گئیں، (ادھر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ان سے آسمان پر ہی کر دیا)، اور قرآن نازل ہو گیا: «فلما قضى زيد منها وطرا زوجناكها»(اس آیت کے نزول کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس کسی حکم و اجازت (یعنی رسمی ایجاب و قبول کے بغیر تشریف لائے، اور) ان سے خلوت میں ملے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3253
اردو حاشہ: (1) حضرت زینبؓ کا نکاح حضرت زید بن حارثہ سے ہوا تھا مگر ان بن رہی۔ آخر طلاق تک نوبت پہنچ گئی۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے متبنیٰ (منہ بولے، لے پالک بیٹے) تھے۔ اس سے پہلے یہ حکم اتر چکا تھا کہ متبنیٰ بیٹا نہیں ہوتا، نہ وہ وارث ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حکم کو عملاً نافذ فرمانا چاہتا تھا، اس لیے رسول اللہﷺ کو حکم دیا گیا کہ اگر زید طلاق دے دیں تو آپ زینب سے نکاح فرمالیں تاکہ عملاً واضح ہوجائے کہ متبنیٰ، بیٹا نہیں۔ اس کی مطلقہ بیوی سے نکاح ہوسکتا ہے۔ آپ لوگوں کی ملامت سے ڈرتے تھے، اس لیے کوشش فرمائی کہ زید طلاق نہ دے لیکن اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو کون ٹال سکتا ہے؟ حضرت زید نے طلاق دے دی۔ عدت ختم ہوئی تو رسول اللہﷺ نے بہ امر الہٰی حضرت زینب کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آیت اتاردی کہ اب جبکہ عدت ختم ہوچکی ہے، ہم نے تمہارا نکاح اس سے کردیا۔ دونوں اللہ کی رضا پر راضی تھے۔ خاوند بیوی بن گئے۔ (2)”مشورہ کرلوں“ اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپﷺ کے عقد میں آنا پسند نہ فرماتی تھیں۔ وہ تو پہلے نکاح سے قبل بھی آپ سے نکاح کی خواہش مند تھیں۔ ان کا استخارہ تو پہلے نکاح کی ناکامی کا نفسیاتی اثر تھا یا اس بنا پر متردد تھیں کہ رسول اللہﷺ کے حقوق صحیح طور پر ادا کرسکیں گی یا نہیں؟ (3)”قرآن مجید کا حکم اتر آیا“ اور وہ آیت ہے جس میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کا نام نامی صراحتاً ذکر ہے۔ ارشاد الہٰی ہے: ﴿فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا﴾(الأحزاب: 33:37) اس فضیلت میں کوئی دوسرے صحابی ان کے ساتھ شریک نہیں۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاه۔ (4) استخارہ کرنا مستحب ہے اگرچہ کام ظاہراً بہتر ہی معلوم رہا ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3253