ثابت بنانی کہتے ہیں کہ میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، وہاں ان کی ایک بیٹی بھی موجود تھی، انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا، اور کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو میری ضرورت ہے؟ ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر آپ مجھے نکاح کے لیے قبول فرمائیں تو میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھوں گی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3251
اردو حاشہ: (1) پیچھے گزرچکا ہے کہ اس دور ہجرت میں بعض خواتین کے نسبی اولیاء نہیں تھے (کونکہ وہ کفر پر قائم تھے) اس لیے وہ اپنے اولیاء کے بجائے خود نکاح کی بات کرنے پر مجبور تھیں۔ ایسے حالات میں یہ کوئی قابل اعتراف بات نہیں۔ حاکم اعلیٰ ہونے کی وجہ سے رسول اللہﷺ ان کی ”ولی“ تھے۔ احتراماً انہوں نے پہلے آپ کو نکاح کی پیش کش کی ورنہ ان کا مقصد صرف نکاح تھا۔ رسول اللہﷺ نے کسی عورت کی ایسی پیش کش کو قبول نہ فرمایا جب تک یہی پیش کش ان کے اولیاء نے نہیں کی۔ ﷺ۔ (2) اگر مختلف رشتے آئے ہوں اور ان میں کوئی دین داررشتہ ہو تو عورت اپنے اولیاء کو اس کی طرف توجہ دلا سکتی ہے۔ اس میں انشاء اللہ کوئی قلت حیا یا عدم حیا والی بات نہیں‘ یہ عورت کی اپنی رغبت ہے جو اس کے لیے دنیا وآخرت میں نفع کا سبب ہے۔ (3) ہر معاملے میں آخرت کو دنیا پر ترجیح دینی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3251