سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
197. بَابُ : التَّيَمُّمِ فِي السَّفَرِ
197. باب: سفر میں تیمم کا بیان۔
Chapter: Tayammum During A Journey
حدیث نمبر: 315
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني محمد بن يحيى بن عبد الله، قال: حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: حدثني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، عن عمار، قال:" عرس رسول الله صلى الله عليه وسلم باولات الجيش ومعه عائشة زوجته فانقطع عقدها من جزع ظفار، فحبس الناس ابتغاء عقدها ذلك حتى اضاء الفجر وليس مع الناس ماء، فتغيظ عليها ابو بكر، فقال: حبست الناس وليس معهم ماء، فانزل الله عز وجل رخصة التيمم بالصعيد، قال: فقام المسلمون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فضربوا بايديهم الارض ثم رفعوا ايديهم ولم ينفضوا من التراب شيئا، فمسحوا بها وجوههم وايديهم إلى المناكب ومن بطون ايديهم إلى الآباط".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قال: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَمَّارٍ، قال:" عَرَّسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُولَاتِ الْجَيْشِ وَمَعَهُ عَائِشَةُ زَوْجَتُهُ فَانْقَطَعَ عِقْدُهَا مِنْ جَزْعِ ظِفَارِ، فَحُبِسَ النَّاسُ ابْتِغَاءَ عِقْدِهَا ذَلِكَ حَتَّى أَضَاءَ الْفَجْرُ وَلَيْسَ مَعَ النَّاسِ مَاءٌ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: حَبَسْتِ النَّاسَ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رُخْصَةَ التَّيَمُّمِ بِالصَّعِيدِ، قَالَ: فَقَامَ الْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَرَبُوا بِأَيْدِيهِمُ الْأَرْضَ ثُمَّ رَفَعُوا أَيْدِيَهُمْ وَلَمْ يَنْفُضُوا مِنَ التُّرَابِ شَيْئًا، فَمَسَحُوا بِهَا وُجُوهَهُمْ وَأَيْدِيَهُمْ إِلَى الْمَنَاكِبِ وَمِنْ بُطُونِ أَيْدِيهِمْ إِلَى الْآبَاطِ".
عمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے پچھلے پہر اولات الجیش میں اترے، آپ کے ساتھ آپ کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، تو ان کا ظفار کے مونگوں والا ہار ٹوٹ کر گر گیا، تو ان کے اس ہار کی تلاش میں لوگ روک لیے گئے یہاں تک کہ فجر روشن ہو گئی، اور لوگوں کے پاس پانی بالکل نہیں تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر ناراض ہوئے، اور کہنے لگے: تم نے لوگوں کو روک رکھا ہے اور حال یہ ہے کہ ان کے پاس پانی بالکل نہیں ہے، تو اللہ عزوجل نے مٹی سے تیمم کرنے کی رخصت نازل فرمائی، عمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے، اور ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا، پھر انہیں بغیر جھاڑے اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مونڈھوں تک اور اپنے ہاتھوں کے نیچے (کے حصہ پر) بغل تک مل لیا ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: ایسا ان لوگوں نے اس وجہ سے کیا ہو گا کہ ممکن ہے پہلے یہی مشروع رہا ہو، پھر منسوخ ہو گیا ہو، یا ان لوگوں نے اپنے اجتہاد سے بغیر پوچھے ایسا کیا ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطھارة 123 (320)، (تحفة الأشراف 10357) مسند احمد 4/ 263، 264۔ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن أبي داود320عبد الله بن عباسعرس بأولات الجيش ومعه عائشة فانقطع عقد لها من جزع ظفار فحبس الناس ابتغاء عقدها ذلك حتى أضاء الفجر وليس مع الناس ماء
   سنن النسائى الصغرى315عبد الله بن عباسعرس رسول الله صلى الله عليه وسلم باولات الجيش ومعه عائشة زوجته فانقطع عقدها

سنن نسائی کی حدیث نمبر 315 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 315  
315۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت پیچھے گزر چیک ہے (دیکھیے، روایت: 311]
مٹی وغیرہ نہیں جھاڑی مٹی جھاڑنا ضرورت کی بنا پر ہے، یعنی اگر مٹی زیادہ لگ جائے تو پھونک مار کر یا دونوں ہاتھوں کو آپس میں ٹکرا کر زائد مٹی گرا دی جائے اور اگر مٹی مناسب لگی ہے تو پھونک مارنا یا مٹی جھاڑنا بے فائدہ ہے۔ بہر صورت مٹی جھاڑنا تیمم کا حصہ نہیں۔
➋ کندھوں اور بغلوں تک تیمم کرنا باقی روایات کے خلاف ہے، اس لیے بعض محققین نے مسح میں کندھوں، بغلوں اور کہنیوں تک مسح کرنے کو صحیح نہیں کہا: بلکہ ان الفاظ کو شاذ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [صحیح سنن أبی داود للألبانی، رقم: 344، 345، و صحیح سنن النسائي، رقم: 315]
بعض لوگوں نے اپنے طور پر ایسا کر لیا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا منقول نہیں اور یہ کام بھی نزول حکم کے بعد پہلی بار تیمم کرتے ہوئے کیا گیا تھا جب کہ بعد میں اس کا طریقہ سنت نبوی سے متعین ہو گیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 315   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 320  
´تیمم کا بیان۔`
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اولات الجیش ۱؎ میں رات گزارنے کے لیے ٹھہرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، ان کا ہار جو ظفار کے مونگوں سے بنا تھا ٹوٹ کر گر گیا، چنانچہ ہار کی تلاش کے سبب لوگ روک لیے گئے یہاں تک کہ صبح روشن ہو گئی اور لوگوں کے پاس پانی موجود نہیں تھا، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر ناراض ہو گئے اور کہا: تم نے لوگوں کو روک رکھا ہے، حالانکہ ان کے پاس پانی نہیں ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پاک مٹی سے طہارت حاصل کرنے کی رخصت نازل فرمائی، مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے، اپنے ہاتھ زمین پر مار کر اسے اس طرح اٹھا لیا کہ مٹی بالکل نہیں لگی، پھر اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مونڈھوں تک اور ہتھیلیوں سے بغلوں تک مسح کیا۔ ابن یحییٰ نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ ابن شہاب نے اپنی روایت میں کہا: لوگوں کے نزدیک اس فعل کا اعتبار نہیں ہے ۲؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نیز اسی طرح ابن اسحاق نے روایت کی ہے اس میں انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے دو ضربہ ۳؎ کا ذکر کیا ہے جس طرح یونس نے ذکر کیا ہے، نیز معمر نے بھی زہری سے دو ضربہ کی روایت کی ہے۔ مالک نے زہری سے، زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ سے، عبیداللہ نے اپنے والد عبداللہ سے، عبداللہ نے عمار رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، اور اسی طرح ابواویس نے زہری سے روایت کی ہے، اور ابن عیینہ نے اس میں شک کیا ہے: کبھی انہوں نے «عن عبيد الله عن أبيه» کہا، اور کبھی «عن عبيد الله عن ابن عباس» یعنی کبھی «عن أبيه» اور کبھی «عن ابن عباس» ذکر کیا۔ ابن عیینہ اس میں ۴؎ اور زہری سے اپنے سماع میں ۵؎ مضطرب ہیں نیز زہری کے رواۃ میں سے کسی نے دو ضربہ کا ذکر نہیں کیا ہے سوائے ان لوگوں کے جن کا میں نے نام لیا ہے ۶؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 320]
320۔ اردو حاشیہ:
علامہ منذری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ حدیث عمار میں دو باتیں ہیں کہ صحابہ کا عمل تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں تھا یا ان کا اپنا اجتہاد تھا۔ اگر ان کا یہ فعل اپنے اجتہاد سے تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ان کے برخلاف ثابت ہوا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں کسی کا قول و فعل کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ حق ہی اس لائق ہوتا ہے کہ اس کی اتباع کی جائے۔ اگر بالفرض ان حضرات کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے تحت تھا تو ثابت ہوتا ہے کہ اسے منسوخ کر دیا گیا ہے اور اس کے لیے ناسخ بھی۔ انہی حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی ایک اور حدیث ہے۔ الخ
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 320   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.