ابو سمح رضی اللہ عنہ (خادم النبی) کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچی کا پیشاب دھویا جائے گا، اور بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ایک روایت میں «مالم یطعم»(جب تک وہ کھانا نہ کھانے لگے) کی قید ہے، اس لیے جو روایتیں مطلق ہیں، انہیں مقید پر محمول کیا جائے گا یعنی دونوں کے پیشاب میں یہ تفریق اس وقت تک کے لیے ہے جب تک وہ دونوں کھانا نہ کھانے لگ جائیں، کھانا کھانے لگ جانے کے بعد دونوں کے پیشاب کا حکم یکساں ہو گا، دونوں کا پیشاب دھونا ضروری ہو جائے گا۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 26
´لڑکے اور لڑکی کے پیشاب کی بابت شرعی حکم الگ الگ ہے` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: يغسل من بول الجارية، ويرش من بول الغلام . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”لڑکی کے پیشاب سے کپڑا دھویا جائے گا اور لڑکے کے پیشاب سے کپڑے پر پانی کے چھینٹے مارے جائیں گے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 26]
لغوی تشریح: «مِنْ بَوْلِ الْجَارِيَةِ» اس میں «مِنْ» علت کے لیے ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ کپڑے اور بدن وغیرہ پر لڑکی کا پیشاب لگنے کی وجہ سے۔ «اَلْجَارِيَةِ» کے معنی لڑکی، بچی کے ہیں۔ «يُرَشُّ» «رَشّ» سے ماخوذ ہے اور مجہول کا صیغہ ہے۔ اس کے معنی چھڑکنے کے ہیں۔ وہ اس طرح کہ جہاں پیشاب لگا ہو وہاں پانی اتنا چھڑکا جائے کہ اتنے متاثرہ حصے پر پانی غالب آ جائے اور متاثرہ جگہ کو ڈھانپ لے، مگر اتنی کثیر مقدار میں چھڑکنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ پانی وہاں سے بہہ نکلے اور قطروں کی صورت میں نیچے گرنے لگے۔
فوائد و مسائل: ➊ حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ لڑکے اور لڑکی کے پیشاب کی بابت شرعی حکم الگ الگ ہے۔ ➋ لڑکی کا پیشاب لگنے سے کپڑے کو دھونا اور لڑکے کے پیشاب کے لیے پانی کا چھڑکنا اس وقت تک ہے جب تک دونوں کی مستقل غذا دودھ ہے۔ دودھ کے علاوہ غذا کھانے کی صورت میں دونوں کا پیشاب نجاست کے اعتبار سے یکساں حکم رکھتا ہے۔ ➌ بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پاک ہے۔ بس حدیث میں اس سے زیادہ کچھ دلیل نہیں کہ بچے کے پیشاب کو پاک کرنے میں شریعت نے ذرا نرمی دی ہے۔ [سبل السلام] ➍ خلاصہ کلام یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے کے پیشاب میں فرق ہے۔ شیرخوارگی کے ایام میں لڑکی کا پیشاب لڑکے کی بہ نسبت زیادہ ناپاک ہے۔ شیرخوارگی کے بعد دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ ➎ امام شافعی، امام احمد، ابن وہب، حسن بصری، اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکنا کافی ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ دھونے کو ضروری قرار دیتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔
راوی حدیث: أَبُو السَّمْح رضی اللہ عنہ ”سین“ پر فتحہ اور ”میم“ ساکن۔ ”أبو سمح“ ان کی کنیت ہے۔ ایاد (”ہمزہ“ کے کسرہ کے ساتھ) ان کا نام ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نام اور کنیت ایک ہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام اور آپ کے خادم تھے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق یہ گم ہو گئے تھے۔ معلوم نہیں کہاں وفات پائی؟ ان سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 26
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 376
´بچے کا پیشاب کپڑے پر لگ جائے تو کیا کرے؟` ابو سمح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا، جب آپ غسل کرنا چاہتے تو مجھ سے فرماتے: ”تم اپنی پیٹھ میری جانب کر لو“، چنانچہ میں چہرہ پھیر کر اپنی پیٹھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کر کے آپ پر آڑ کئے رہتا، (ایک مرتبہ) حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کو آپ کی خدمت میں لایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے پر پیشاب کر دیا، میں اسے دھونے کے لیے بڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جاتا ہے۔“ حسن بصری کہتے ہیں: (بچوں اور بچیوں کے) پیشاب سب برابر ہیں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 376]
376۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ فرمان کے مقابلے میں کسی بھی امتی کا قول و فتویٰ قابل قبول نہیں ہو سکتا لہٰذا لڑکی کا پیشاب دھویا جائے گا اور لڑکے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں گے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 376
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 26
«والنجاسات هي غائط الإنسان وبوله إلا الذكر الرضيع» ”اور نجاستیں یہ ہیں: مطلق طور پر انسان کا پیشاب اور پاخانہ۔ مگر دودھ پیتے بچے کا پیشاب (نجس نہیں)۔“
جیسا کہ دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابوالسمح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «يُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْجَارِيَةِ، وَيُرَشُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلَامِ» ”لڑکے کے پیشاب سے آلودہ کپڑا دھویا جائے گا اور لڑکی کے پیشاب سے آلودہ کپڑے پر پانی کے چھینٹے مارے جائیں گے۔“[أبو داود 376]۱؎
➋ اس معنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوع روایت مروی ہے: «بول الغلام الرضيع ينضح و بون الجارية يغسله»[أبو داود 378]۲؎
➌ حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچے کو لے کر، جو کہ ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اس بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پر پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور «وفنضحه ولم
يغسله» اس کپڑے پر پانی کے چھینٹے مارے اور اسے دھویا نہیں۔ [بخاري 223]۳؎
➍ حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دھویا نہیں (بلکہ چھینٹے مارنے پر ہی اکتفاء کیا)۔ [أبوداود 375]۴؎
➎ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر اس پر پھینک دیا «ولم يغسله»”اور اسے دھویا نہیں۔“[بخاري 222]۵؎
اس مسئلہ میں علماء نے تین مذاہب اختیار کیے ہیں۔
➊ (علی رضی اللہ عنہ، احمد رحمہ اللہ، اسحاق رحمہ اللہ، زہری رحمہ اللہ) ان کا موقف حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق ہی ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا، امام ثوری، امام نخعی، امام داؤد، امام عطاء، امام ابن وہب، امام حسن اور امام مالک رحمہم اللہ اجمعین سے ایک روایت میں یہی مذہب منقول ہے۔ [شرح زرقاني على مؤطا 129/1]۶؎
➋ (اوزاعی رحمہ اللہ) لڑکا اور لڑکی دونوں کے پیشاب میں صرف چھینٹے مارنا ہی کافی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت منقول ہے۔ [المجموع 548/2]۷؎
➌ (حنفیہ، مالکیہ) دونوں کے پیشاب کو دھونا ضروری ہے۔ [الدر المختار 293/1]۸؎ (راجح) پہلا موقف راجح ہے۔ تیسرے مذہب والوں نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے جن میں بالعموم پیشاب کے نجس ہونے کا ذکر ہے۔ حالانکہ ”مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے۔“ اور اسی طرح ”عام کو خاص پر محمول کرنا بھی واجب ہے۔“علاوہ ازیں لڑکی کے پیشاب پر (لڑکے کے پیشاب کو) قیاس کرنا بھی فاسد ہے کیونکہ یہ واضح نص کے خلاف ہے، نیز گزشتہ صریح احادیث آخری دونوں مذاہب کو رد کرتی ہیں۔ [فتح الباري 390/1]۹؎ (ابن حزم رحمہ اللہ) اپنے قول میں منفرد ہیں کہ مذکر خواہ کوئی بھی ہو (یعنی اگرچہ جوان بھی ہو) اس کے پیشاب پر صرف چھینٹے ہی مارے جائیں گے۔ (حالانکہ حدیث میں صرف دودھ پینے والے بچے کا ہی ذکر ہے)۔ [نيل الأوطار 95/1]۱۰؎ ------------------ ۱؎[صحيح: صحيح أبو داود 362، كتاب الطهارة: باب بول الصبي يصيب الثو ب، أبو داود 376، نسائي 158/1 ابن ماجة 566، ابن خزيمة 283، بيهقي 415/2، دارقطني 130/1، حاكم 166/1] ۲؎[صحيح: صحيح أبو داود 364، كتاب الطهارة: باب بول الصبي يصيب الثوب، أبو داود 378، ترمذي 610، ابن ماجة 020، أحمد 76/1، شرح معاني الآثار 92/1، دارقطني 129/1، حاكم 160/1، بيهقي 415/2، ابن خزيمة 284، ابن حبان 247] ۳؎[بخاري 223، كتاب الوضوء: باب بول الصبيان، مسلم 287، أحمد 355/6، أبوداود 374، ترمذي 71، نسائي 157/1 ابن ماجة 524، حميدي 343، ابن الجارود 139، ابوعوانة 202/1، ابن خزيمة 144/1، شرح معاني الآثار 92/1، بيهقي 414/2، شرح السنة 284/1] ۴؎[صحيح: صحيح أبوداود 361، كتاب الطهارة: باب بول الصبي يصيب الثو ب، أبوداود 375، ابن ماجة 522، شرح معاني الآثار 92/1، حاكم 166/1، بيهقي 414/2 ابن خزيمة 282، شرح السنة 385/1، طبراني كبير 5/3] ۵؎[مسلم 286، كتاب الطهارة: باب حكم بول الطفل الرضيع و كيفية غسله، بخاري 222، ابن ماجة 523، احمد 52/6] ۶؎[شرح زرقاني على مؤطا 129/1، الكافي 91/1، قوانين الأحكام الشرعية ص/ 47، مغني المحتاج 84/1، كشاف القناع 217/1، المهذب 49/1] ۷؎[المجموع 548/2، مغني المحتاج 84/1، شرح زرقاني على مؤطا 129/1] ۸؎[روضة الطالبين 141/1، شرح المهذب 409/2، بداية المجتهد 77/1، فتح القدير 140/1، الدر المختار 293/1] ۹؎[نيل الأوطار 96/1، تلخيص الحبير 37/1، فتح الباري 390/1، عون المعبود 33/2، فقو الأثر 62/1، الفقه الإسلامي وأدلته 311/1، سبل السلام 69/1] ۱۰؎[نيل الأوطار 95/1، الروضة الندية 76/1] ------------------