(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا ابن جريج، قال: حدثني سليمان الاحول، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم برجل يقوده رجل بشيء ذكره في نذر، فتناوله النبي صلى الله عليه وسلم، فقطعه، قال:" إنه نذر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ الْأَحْوَلُ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ يَقُودُهُ رَجُلٌ بِشَيْءٍ ذَكَرَهُ فِي نَذْرٍ، فَتَنَاوَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَطَعَهُ، قَالَ:" إِنَّهُ نَذْرٌ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جسے ایک آدمی ایک ایسی چیز سے (باندھ کر) کھینچے لیے جا رہا تھا جسے اس نے نذر میں ذکر کیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے کر کاٹ دیا، فرمایا: ”یہ نذر ہے“۱؎۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2924
اردو حاشہ: دور جاہلیت میں لوگ عجیب وغریب نذریں مانتے تھے جن سے کسی کو کوئی فائدہ نہ ہوتا تھا بلکہ وہ انسانی وقار کے خلاف ہوتی تھیں، مثلاً: پیدل حج کو جاؤں گا، دھوپ میں رہوں گا، سر پر اوڑھنی نہیں لوں گی، کسی سے کلام نہیں کروں گا، جوتا نہیں پہنوں گا، ننگا طواف کروں گا وغیرہ۔ ظاہر ہے یہ فضول کام ہیں بلکہ اپنے آپ کو عذاب میں ڈالنے والی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ان کاموں سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ ایسے کام اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو دعوت دیتے ہیں، لہٰذا ایسی نذر پوری نہ کی جائے بلکہ کفارہ دے دیا جائے۔ (بعض ائمہ کے نزدیک) اس حدیث میں مذکور شخص نے بھی نذر مانی ہوگی کہ میں اپنی ناک میں نکیل ڈال کر طواف کروں گا۔ اس طرح وہ لوگوں کے لیے تماشا بن گیا تھا، لہٰذا رسول اللہﷺ نے اظہار ناراضی فرمایا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2924