● صحيح البخاري | 7243 | عائشة بنت عبد الله | قومك قصرت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا قال فعل ذاك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا لولا أن قومك حديث عهدهم بالجاهلية فأخاف أن تنكر قلوبهم أن أدخل الجدر في البيت وأن ألصق بابه في الأرض |
● صحيح البخاري | 1585 | عائشة بنت عبد الله | لولا حداثة قومك بالكفر لنقضت البيت ثم لبنيته على أساس إبراهيم قريشا استقصرت بناءه وجعلت له خلفا |
● صحيح البخاري | 1586 | عائشة بنت عبد الله | لولا أن قومك حديث عهد بجاهلية لأمرت بالبيت فهدم أدخلت فيه ما أخرج منه وألزقته بالأرض وجعلت له بابين بابا شرقيا وبابا غربيا فبلغت به أساس إبراهيم فذلك الذي حمل ابن الزبير ما على هدمه |
● صحيح البخاري | 1584 | عائشة بنت عبد الله | قومك قصرت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا قال فعل ذلك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا لولا أن قومك حديث عهدهم بالجاهلية فأخاف أن تنكر قلوبهم أن أدخل الجدر في البيت وأن ألصق بابه بالأرض |
● صحيح البخاري | 126 | عائشة بنت عبد الله | لولا قومك حديث عهدهم بكفر لنقضت الكعبة جعلت لها بابين باب يدخل الناس وباب يخرجون |
● صحيح مسلم | 3248 | عائشة بنت عبد الله | لولا حدثان قومك بالكفر لنقضت البيت حتى أزيد فيه من الحجر إن قومك قصروا في البناء |
● صحيح مسلم | 3249 | عائشة بنت عبد الله | قومك قصرت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا قال فعل ذلك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا لولا أن قومك حديث عهدهم في الجاهلية فأخاف أن تنكر قلوبهم لنظرت أن أدخل الجدر في البيت وأن ألزق بابه بالأرض |
● صحيح مسلم | 3244 | عائشة بنت عبد الله | لولا أن قومك حديثو عهد بشرك لهدمت الكعبة ألزقتها بالأرض وجعلت لها بابين بابا شرقيا وبابا غربيا وزدت فيها ستة أذرع من الحجر فإن قريشا اقتصرتها حيث بنت الكعبة |
● صحيح مسلم | 3243 | عائشة بنت عبد الله | لولا أن قومك حديثو عهد بجاهلية لأنفقت كنز الكعبة في سبيل الله لجعلت بابها بالأرض ولأدخلت فيها من الحجر |
● صحيح مسلم | 3242 | عائشة بنت عبد الله | ألم تري أن قومك حين بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم أفلا تردها على قواعد إبراهيم لولا حدثان قومك بالكفر لفعلت |
● صحيح مسلم | 3240 | عائشة بنت عبد الله | لولا حداثة عهد قومك بالكفر لنقضت الكعبة ولجعلتها على أساس إبراهيم قريشا حين بنت البيت استقصرت ولجعلت لها خلفا |
● صحيح مسلم | 3246 | عائشة بنت عبد الله | قومك استقصروا من بنيان البيت لولا حداثة عهدهم بالشرك أعدت ما تركوا منه فإن بدا لقومك من بعدي أن يبنوه فهلمي لأريك ما تركوا منه فأراها قريبا من سبعة أذرع هذا |
● صحيح مسلم | 3245 | عائشة بنت عبد الله | لولا أن الناس حديث عهدهم بكفر وليس عندي من النفقة ما يقوي على بنائه لكنت أدخلت فيه من الحجر خمس أذرع ولجعلت لها بابا يدخل الناس منه وبابا يخرجون منه |
● جامع الترمذي | 876 | عائشة بنت عبد الله | صلي في الحجر إن أردت دخول البيت فإنما هو قطعة من البيت لكن قومك استقصروه حين بنوا الكعبة فأخرجوه من البيت |
● جامع الترمذي | 875 | عائشة بنت عبد الله | لولا أن قومك حديثو عهد بالجاهلية لهدمت الكعبة جعلت لها بابين |
● سنن أبي داود | 2028 | عائشة بنت عبد الله | صلي في الحجر إذا أردت دخول البيت فإنما هو قطعة من البيت لكن قومك اقتصروا حين بنوا الكعبة فأخرجوه من البيت |
● سنن النسائى الصغرى | 2904 | عائشة بنت عبد الله | لولا حداثة عهد قومك بالكفر لنقضت البيت فبنيته على أساس إبراهيم جعلت له خلفا فإن قريشا لما بنت البيت استقصرت |
● سنن النسائى الصغرى | 2913 | عائشة بنت عبد الله | لولا أن الناس حديث عهدهم بكفر وليس عندي من النفقة ما يقوي على بنائه لكنت أدخلت فيه من الحجر خمسة أذرع وجعلت له بابا يدخل الناس منه وبابا يخرجون منه |
● سنن النسائى الصغرى | 2906 | عائشة بنت عبد الله | لولا أن قومك حديث عهد بجاهلية لأمرت بالبيت فهدم أدخلت فيه ما أخرج منه وألزقته بالأرض وجعلت له بابين بابا شرقيا وبابا غربيا فإنهم قد عجزوا عن بنائه فبلغت به أساس إبراهيم |
● سنن النسائى الصغرى | 2915 | عائشة بنت عبد الله | إذا أردت دخول البيت فصلي ها هنا فإنما هو قطعة من البيت لكن قومك اقتصروا حيث بنوه |
● سنن النسائى الصغرى | 2903 | عائشة بنت عبد الله | ألم تري أن قومك حين بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم ألا تردها على قواعد إبراهيم لولا حدثان قومك بالكفر |
● سنن النسائى الصغرى | 2905 | عائشة بنت عبد الله | لولا أن قومي حديث عهد بجاهلية لهدمت الكعبة جعلت لها بابين |
● سنن ابن ماجه | 2955 | عائشة بنت عبد الله | عجزت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا لا يصعد إليه إلا بسلم قال ذلك فعل قومك ليدخلوه من شاءوا ويمنعوه من شاءوا لولا أن قومك حديث عهد بكفر مخافة أن تنفر قلوبهم لنظرت هل أغيره فأدخل فيه ما انتقص منه وجعلت بابه بالأرض |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2906
اردو حاشہ:
”حجر کا کچھ حصہ“ گویا مکمل حجر بیت اللہ کا حصہ نہیں۔ کچھ حصہ حقیقتاً باہر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دیوار اس پورے حصے کے اردگرد بنا دی گئی ہے۔ دیوار ہی کی وجہ سے اسے حجر کہتے ہیں۔ آج کل بھی حجر یا حطیم کی دیوار پر اس جگہ نشان لگا دیے گئے ہیں جہاں تک بیت اللہ کا حصہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2906
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 126
´مصلحتاً کسی مستحب کام کو ترک کرنا`
«. . . قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ: كَانَتْ عَائِشَةُ تُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا، فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الْكَعْبَةِ، قُلْتُ: قَالَتْ لِي: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ، لَوْلَا قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: بِكُفْرٍ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ، بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ "، فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ . . .»
”. . . مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا (ہاں) مجھ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم (دور جاہلیت کے ساتھ) قریب نہ ہوتی (بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ (قریب نہ ہوتی) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، (بعد میں) ابن زبیر نے یہ کام کیا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ تَرَكَ بَعْضَ الاِخْتِيَارِ مَخَافَةَ أَنْ يَقْصُرَ فَهْمُ بَعْضِ النَّاسِ عَنْهُ فَيَقَعُوا فِي أَشَدَّ مِنْهُ: 126]
� تشریح:
قریش چونکہ قریبی زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے، اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً کعبہ کی نئی تعمیر کو ملتوی رکھا، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث سن کر کعبے کی دوبارہ تعمیر کی اور ا س میں دو دروازے ایک شرقی اور ایک غربی جانب نکال دئیے، لیکن حجاج نے پھر کعبہ کو توڑ کر اسی شکل پر قائم کر دیا۔ جس پر عہد جاہلیت سے چلا آ رہا تھا۔ اس باب کے تحت حدیث لانے کا حضرت امام کا منشا یہ ہے کہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر کعبہ کا توڑنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتوی فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر فتنہ و فساد پھیل جانے کا یا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہو تو وہاں مصلحتاً کسی مستحب کام کو ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ سنت نبوی کا معاملہ الگ ہے۔ جب لوگ اسے بھول جائیں تو یقیناً اس سنت کے زندہ کرنے والوں کو سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ جس طرح ہندوستانی مسلمان ایک مدت سے جہری نمازوں میں آمین بالجہر جیسی سنت نبوی کو بھولے ہوئے تھے کہ اکابر اہل حدیث نے ازسر نو اس سنت نبوی کو زندہ کیا اور کتنے لوگوں نے اس سنت کو رواج دینے میں بہت تکلیف برداشت کی، بہت سے نادانوں نے اس سنت نبوی کا مذاق اڑایا اور اس پر عمل کرنے والوں کے جانی دشمن ہو گئے، مگر ان بندگان مخلصین نے ایسے نادانوں کی باتوں کو نظر انداز کر کے سنت نبوی کو زندہ کیا، جس کے اثرمیں آج اکثر لوگ اس سنت سے واقف ہو چکے ہیں اور اب ہر جگہ اس پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ پس ایسی سنتوں کا مصلحتاً ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے «من تمسك بسنتي عند فساد امتي فله اجر مائة» شہید جو کوئی فساد کے وقت میری سنت کو لازم پکڑے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 126
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1585
1585. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی کفر سے تازہ نہ ہوتاتو میں بیت اللہ کو مسمار کرکے اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر تعمیر کرتا کیونکہ قریش نے اس کی عمارت کو چھوٹا کردیا ہے۔ نیز میں اس کا ایک اور دروازہ پہلے دروازے کے بالمقابل بنادیتا۔ “ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1585]
حدیث حاشیہ:
اب کعبہ میں ایک ہی دروازہ ہے وہ بھی قد آدم سے زیادہ اونچا ہے۔
داخلے کے وقت لوگ بڑی مشکل سے سیڑھی پر چڑھ کر کعبے کے اندر جاتے ہیں اور ایک ہی دروازہ ہونے سے اس کے اندر تازی ہوا مشکل سے آتی ہے۔
داخلے کے لئے کعبہ شریف کو ایام حج میں بہت تھوڑی مدت کے لئے کھولاجاتاہے۔
الحمدللہ کہ 1351 ھ کے حج میں کعبہ شریف میں مترجم کو داخلہ نصیب ہوا تھا۔
والحمد للہ علی ذالك۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1585
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1586
1586. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: ”اگر تیری قوم کا زمانہ جاہلیت ابھی تازہ نہ ہوتا تو میں کعبہ کو منہدم کرکے جو حصہ ا س سے خارج کردیا گیاتھا اس کو پھر اس میں شامل کردیتا اور اس کا دروازہ زمین سے متصل کردیتا۔ نیز اس میں ایک شرقی اور ایک غربی دو دروازے بنادیتا۔ الغرض میں اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں کے مطابق استوار کرتا۔“ (راوی حدیث کہتا ہے کہ) یہ وہ حدیث ہے جس نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو بیت اللہ کے گرانے پر آمادہ کیا تھا۔ یزید کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں حضرت ابن زبیر ؓ نے اسے گرایا اور بنایا تھا انھوں نے اس میں حطیم کو بھی شامل کردیا تھا۔ میں نے ابراہیمی ؑ بنیادوں کے پتھر دیکھے ہیں جو اونٹ کی کوہان جیسے تھے۔ جریرکہتے ہیں: میں نے یزید سے عرض کیا کہ اس جگہ کی نشاندہی کریں کہ کہاں ہے؟انھوں نے فرمایا: میں ابھی تمھیں دکھاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ہمراہ حطیم میں داخل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1586]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہو ا کہ حطیم کی زمین کعبہ میں شریک نہ تھی۔
کیونکہ پرنالے سے لے کر حطیم کی دیوار تک سترہ ہاتھ جگہ ہے اور ایک اتہائی ہاتھ دیوار کا عرض دو ہاتھ اور تہائی ہے۔
باقی پندرہ ہاتھ حطیم کے اندر ہے۔
بعض کہتے ہیںکل حطیم کی زمین کعبہ میں شریک تھی اور حضرت عمر ؓ نے اپنی خلافت میں امتیاز کے لئے حطیم کے گرد ایک چھوٹی سی دیوار اٹھادی (وحیدی)
جس مقدس جگہ پرآج خانہ کعبہ کی عمارت ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں فرشتوں نے پہلے پہل عبادت الہٰی کے لئے مسجد تعمیر کی۔
قرآن مجید میں ہے۔
﴿اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍ وُّضِعَ لِلنَاسِ لَلَّذِي بِبَکَّةَ مُبرَکاَّوَّ هُدَّی لِلعٰلَمِینِ﴾ (آل عمران: 96)
یعنی اللہ کی عبادت کے لئے اور لوگوں کی ہدایت کے لئے برکت والا گھر جو سب سے پہلے دنیا کے اند رتعمیر ہوا وہ مکہ شریف ولا گھر ہے۔
ابن ابی شیبہ، اسحاق بن راہویہ، عبد بن حمید، حرث بن ابی اسامہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بيہقی نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا ہے۔
أن رجلاقال له ألا تخبرني عن البیت أهوأول بیت وضع في الأرض قال لا ولکنه أول بیت وضع للناس فیه البرکة والهدیٰ ومقام إبراهیم ومن دخله کان آمنا۔
ایک شخص نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے پوچھا کہ آیا وہ سب سے پہلا مکان ہے جو روئے زمین پر بنایا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ یہ متبرک مقامات میں سب سے پہلا مکان ہے جو لوگوں کے لئے تعمیر ہوا اس میں برکت اور ہدایت ہے اور مقام ابراہیم ہے جوشخص وہاں داخل ہوجائے اس کو امن مل جاتاہے۔
حضرت آدم ؑ کا بیت اللہ کو تعمیر کرنا! عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر، حضرت عطاء سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺنے فرمایا۔
قال آدم أي رب مالي لا أسمع أصوات الملئکة قال لخطیئتك ولکن اھبط إلی الأرض فابن لي بیتا ثم احفف به کما رأیت الملائکة تحف بیتي الذي في السماء فزعم الناس أنه بناہ خمسة أجبل من حراء و لبنان وطور زیتا و طورسینا و الجودي فکان هذا بنا آدم حتی بناہ إبراهیم بعد۔
(ترجمہ)
حضرت آدم ؑ نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی، پرور دگار کیا بات ہے کہ مجھے فرشتوں کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔
ارشاد الٰہی ہوا یہ تمہاری اس لغزش کا سبب ہے جو شجر ممنوعہ کے استعمال کے باعث تم سے ہوگئی۔
لیکن ایک صورت ابھی باقی ہے کہ تم زمین پر اترو اور ہمارے لئے ایک مکان تیار کرو اور اس کو گھیرے رہو جس طرح تم نے فرشتوں کو دیکھاہے کہ وہ ہمارے مکان کو جو آسمان پر ہے گھیرے ہوئے ہیں۔
لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا حکم کی بنا پر حضرت آدم ؑ نے کوہ حرا، لبنان، طور زیتا، طور سینا اور جودی ایسے پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی، یہاں تک کہ اس کے آثار مٹ گئے تو حضرت ابراہیم ؑ نے اس کے بعد از سر نو اس کو تعمیر کیا۔
ابن جریر، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے حضر ت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
لما أهبط الله آدم من الجنة قال:
إني مهبط معك بيتا - أو:
منزلا - يطاف حوله كما يطاف حول عرشي، ويصلى عنده كما يصلى حول عرشي. فلما كان زمان الطوفان رفعہ اللہ إلیه وكان الأنبياء يحجونه ولا يعلمون مكانه حتی تولاہ اللہ بعد لإبراهیم وأعلمه مکانه فبناہ من خمسة أجبل حراء ولبنان، وثبیروجبل االطور و جبل الحمر وهو جبل بیت المقدس۔
(ترجمہ)
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پراتارا تو ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک گھر بھی اتاروں گا۔
جس کا طواف اسی طرح کیا جاتا ہے جیساکہ میرے عرش کا طواف ہوتا ہے اور اس کے پاس نماز اسی طرح ادا کی جائے گی جس طرح کہ میرے عرش کے پاس ادا کی جاتی ہے۔
پھر طوفان نوح کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اٹھالیا۔
اس کے بعد انبیاء ؑ بیت اللہ شریف کا حج تو کیاکرتے تھے مگر اس کا مقام کسی کو معلوم نہ تھا۔
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا پتہ حضرت ابراہیم ؑ کو بتایا اور اس کی جگہ دکھادی تو آپ نے اس کو پانچ پہاڑوں سے بنایا۔
کوہ حرا، لبنان ثبیر، جبل الحمر، جبل طور (جبل الحمر کو جبل بیت المقدس بھی کہتے ہیں)
ازرقی اور ابن منذر نے حضرت وہب بن منبہ ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب آدم ؑ کی توبہ قبول فرمائی تو ان کو مکہ مکرمہ جانے کاارشاد ہوا۔
جب وہ چلنے لگے تو زمین اور بڑے بڑے میدان لپیٹ کرمختصر کردیئے گئے۔
یہاں تک کہ ایک ایک میدان جہاں سے وہ گزرتے تھے ایک قدم کے برابر ہوگیا اور زمین میں جہا ں کہیں سمندر یا تالاب تھے ان کے دہانے ایک ایک بستی ہوجاتی اور اس میں عجیب برکت نظر آتی۔
شدہ شدہ آپ مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔
مکہ شریف آنے سے پیشتر آدم ؑ کی آہ و زاری اور آپ کا رنج وغم جنت سے چلے آنے کی وجہ سے بہت تھا، یہاں تک کہ فرشتے بھی آپ کے گریہ کی وجہ سے گریہ کرتے وار آپ کے رنج میں شریک ہوتے تھے۔
اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا غم غلط کرنے کے لے جنت کا ایک خیمہ عنایت فرمایا تھا جو مکہ مکرمہ میں کعبہ شریف کے مقام پر نصب کیا گیاتھا۔
یہ وقت وہ تھا کہ ابھی کعبۃ اللہ کو کعبہ کا لقب نہیں دیا گیاتھا۔
اسی دن کعبۃ اللہ کے ساتھ رکن بھی نازل ہوا۔
اس دن وہ سفید یا قوت اور جنت کا ٹکڑا تھا۔
جب حضرت آدم ؑ مکہ شریف آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی اور اس خیمہ کی حفاظت فرشتوں کے ذریعہ کرائی۔
یہ خیمہ آپ کے آخر وقت تک وہیں لگارہا۔
جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض فرمائی تو اس خیمہ کو اپنی طرف اٹھالیا اور آدم ؑ کے صاحبزادوں نے اس کے بعد اس خیمہ کے مقام پر مٹی اور پتھر کا ایک مکان بنایا۔
جو ہمیشہ آباد رہا۔
آدم ؑ کے صاحبزادے اور ان کے بعد والی نسلیں یکے بعد دیگر ے اس کی آبادی کا انتظام کرتی رہیں جب نوح ؑ کا زمانہ آیا تو وہ عمارت غرق ہوگئی اور اس کا نشا ن چھپ گیا۔
حضرت ہود ؑ اور صالح ؑ کے سوا تمام انبیاء ؑ نے بیت اللہ شریف کی زیارت کی ہے ابن اسحاق اور بیہقی نے حضرت عروہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا "مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ حَجَّ الْبَيْتَ إِلَّا مَا كَانَ مِنْ هُودٍ , وَصَالِحٍ وَلَقَدْ حَجَّهُ نُوحٌ فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْأَرْضِ مَا كَانَ مِنَ الْغَرَقِ أَصَابَ الْبَيْتَ مَا أَصَابَ الْأَرْضَ , وَكَانَ الْبَيْتُ رَبْوَةً حَمْرَاءَ فَبَعَثَ اللهُ هُودًا عَلَيْهِ السَّلَامُ فَتَشَاغَلَ بِأَمْرِ قَوْمِهِ حَتَّى قَبَضَهُ اللهُ إِلَيْهِ فَلَمْ يَحُجَّهُ حَتَّى مَاتَ فَلَمَّا بَوَّأَهُ اللهُ لِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ حَجَّهُ , ثُمَّ لَمْ يَبْقَ نَبِيٌّ بَعْدَهُ إِلَّا حَجَّهُ" (ترجمہ)
جس قدر انبیاء ؑ مبعوث ہوئے سب ہی نے بیت اللہ شریف کا حج ادافرمایا مگر حضرت ہود اور حضرت صالح ؑ کو اس کا موقع نہ ملا۔
حضرت نوح ؑ نے بھی حج ادا فرمایاہے لیکن جب آپ کے زمانہ میں زمین پر طوفان آیا اور ساری زمین غرقاب ہوئی تو بیت اللہ شریف کو بھی اس سے حصہ ملا۔
بیت اللہ شریف ایک سرخ رنگ کا ٹیلہ رہ گیا تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود ؑ کو مبعوث فرمایا تو آپ حکم الٰہی کے مطابق فریضہ تبلیغ کی ادئیگی میں مشغول رہے اور آپ کی مشغولیت اس درجہ رہی کہ آپ کو آخردم تک حج کرنے کی نوبت نہ آئی۔
پھر حضرت ابراہیم ؑ کو بیت اللہ شریف ببانے کا موقع ملا تو انہوں نے حج ادا فرمایا آپ کے بعد جس قدر انبیاء تشریف لائے سب نے حج ادا فرمایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیت اللہ کو تعمیر کرنا! طبقات ابن سعد میں حضرت ابو جہم بن حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أوحى الله إلى إبراهيم يأمره بالمسير إلى بلده الحرام. فركب إبراهيم البراق وحمل إسماعيل أمامه. وهو ابن سنتين. وهاجر خلفه ومعه جبريل يدله على موضع البيت حتى قدم به مكة. فأنزل إسماعيل وأمه إلى جانب البيت. ثم انصرف إبراهيم إلى الشأم. ثم أوحی اللہ إلی إبراهیم أن تبني البیت وهویومئذ ابن مائة سنة وإسمعیل یؤمئذ ابن ثلاثین سنة فبناہ معه وتوفي إسمعیل بعد أبیه فد فن داخل الحجر مما یلي۔
یعنی اللہ عزوجل نے حضرت ابراہیم ؑ کو بذریعہ وحی حکم بھیجا کہ بلدالحرام مکہ شریف کی طرف چلیں۔
چنانچہ آپ بہ تعمیل حکم الٰہی براق پر سوار ہوگئے۔
اپنے پیارے نور نظر حضرت اسماعیل کوجن کی عمر شریف ہنوز دوسال کی تھی اپنے سامنے اور بی بی ہاجرہ کو اپنے پیچھے لے لیا۔
حضرت جبرئیل ؑ بیت اللہ شریف کامقام بتلانے کی غرض سے آپ کے ساتھ تھے۔
جب مکہ مرمکرمہ تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کو بیت اللہ کے ایک جانب میں اتارا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام شام کو واپس ہوئے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب کہ آپ کی عمر شریف کامل ایک سو سال تھی، بذریعہ وحی بیت اللہ شریف کے بنانے کا حکم فرمایا۔
اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر مبارک تیس سال کی تھی۔
چنانچہ اپنے صاحبزادے کو ساتھ لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیاد ڈالی۔
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی آپ کے بعد وفات پائی تو حجر اسود اور کعبہ شریف کے درمیان اپنی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ دفن ہوئے اور آپ کے صاحبزادے حضرت ثابت بن اسماعیل اپنے والد محترم کے بعد اپنے ماموؤں کے ساتھ مل کر جو بنی جرہم سے تھے کعبہ شریف کے متولی قرار پائے۔
ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن حاتم اور بيہقی کی روایت کے مطابق حضرت علی کرم ؓ فرماتے ہیں جب حضرت ابراہیم ؑ کو کعبۃ اللہ شریف بنانے کا حکم ہواتو آپ کو معلوم نہ ہوسکا کہ اس کو کس طرح بنائیں۔
اس نوبت پر اللہ پاک نے سکینہ یعنی ایک ہوا بھیجی جس کے دو کنارے تھے۔
اس نے بیت اللہ شریف کے مقام پر طوق کی طرح ایک حلقہ باندھ دیا۔
ادھر آپ کو حکم ہوچکا تھا کہ سکینہ جہاں ٹھہرے بس وہیں تعمیر ہونی چاہئے۔
چنانچہ حضرت ابراہم ؑ نے اس مقام پر بیت اللہ شریف کو تعمیر فرمایا۔
دیلمی نے حضرت علی ؓ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔
زیر تفسیر آیت ﴿وَإِذ یَرفَعُ إِبرَاهِیمُ القَوَاعِدَ﴾ (البقرة: 127)
کہ بیت اللہ شریف جس طرح مربع ہے اسی طرح ایک چوکونی ابرنمودار ہوا اس سے آواز آتی تھی کہ بیت اللہ کا ارتفاع ایسا ہی چوکونا ہونا چاہئے جیسا میں یعنی ابر چوکونا ہوں۔
چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ کو اسی کے مطابق مربع بنایا۔
سعید بن منصور اور عبد بن حمید، ابن ابی حاتم وغیرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے ہوا کہ ڈالے ہوئے نشان کے نیچے کھودنا شرو ع کیا۔
پس بیت اللہ شریف کے ستون برآمد ہوگئے۔
جس کو تیس تیس آدمی بھی ہلا نہیں سکتے تھے۔
آیت بالا کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں:
القواعد التي کانت قواعد البیت قبل ذلك ستون جن کو حضرت ابراہیم ؑ نے بنایا، یہ وہی ستون ہیں جو بیت اللہ شریف میں پہلے کے بنے ہوئے تھے۔
ان ہی کو حضرت ابراہیم ؑ نے بلند کیا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ شریف اگرچہ حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل کا تعمیر فرمودہ ہے لیکن اس کا سنگ بنیاد ان حضرات کا رکھا ہوا نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد قدیم ہے آپ نے صرف اس کی تجدید فرمائی۔
جب حضرت ابراہیم ؑ تعمیر کعبہ فرمارہے تھے۔
تو یہ دعائیں آپ کی زبان پر تھیں۔
﴿ربنا تقبل مِنا إِنكَ أَنتَ السمیعُ العلیمُ﴾ اے رب! ہماری اس خدمت توحید کو قبول فرمائیے۔
تو جاننے والا سننے والا ہے۔
﴿رَبَّنَاوَاجعلنَا مُسلِمَینِ لَكَ وَ مِن ذُرّیِتِنَآ اُمَّة مُّسلِمَمة لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُب عَلَینَا اِنَّكَ اَنتَ التَّوبُ الرَّحِیمُ﴾ (البقرة: 128)
اے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنالے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت ہمیشہ اس مشن کو زندہ رکھنے والی بنا دے او مناسک حج سے ہمیں آگاہ کردے اور ہمارے اوپر اپنی عنایات کی نظر کردے تو نہایت ہی تواب اور رحیم ہے۔
﴿رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ﴾ (سورة إبراهیم: 13)
اے رب! اس شہر کو امن و امان والا مقام بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو ہمیشہ بت پرستی کی حماقت سے بچاتا رہیو۔
﴿رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ (إبراهیم: 37)
اے رب!میں اپنی اولاد کو ایک بنجرنا قابل کاشت بیابان میں تیرے پاک گھر کے قریب آباد کرتا ہوں۔
اے رب! میری غرض ان کو یہاں بسانے سے صرف یہ ہے کہ یہ تیری عبادت کریں۔
نماز قائم کریں۔
میرے مولا! لوگوں کے دل ان کی طرف پھیردے اور ان کو میووں سے روزی عطا کرنا کہ یہ تیری شکر گزاری کریں۔
قال ابن عباس:
بنى إبراهيم البيت من خمسة أجبل:
من طور سيناء وطور زيتا ولبنان جبل بالشام والجودي جبل بالجزيرة، وبنى قواعده من حراء جبل بمكة فلما انتهى إبراهيم إلى موضع الحجر الأسود قال لإسماعيل:
ائتني بحجر حسن يكون للناس علما فأتاه بحجر فقال ائتني بأحسن منه فمضى إسماعيل ليطلب حجرا أحسن منه فصاح أبو قبيس:
يا إبراهيم إن لك عندي وديعة فخذها فقذف بالحجر الأسود فأخذه إبراهيم فوضعه مكانه۔
(خازن، ج 1 ص: 94)
یعنی حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے طور سینا وطور زیتا جبل لبنان جو شام میں ہے اور جبل جودی جو جزیرہ میں ہیں ان چاروں پہاڑوں کے پتھروں کا استعمال کیا۔
جب آپ حجر اسود کے مقام تک پہنچ گئے، تو آپ نے حضرت اسماعیل ؑ سے فرمایا کہ ایک خوبصورت سا پتھر لاؤ جس کو نشانی کے طور پر (طوافوں کی گنتی کے لئے)
میں قائم کردوں۔
حضرت اسماعیل ایک پتھر لائے، اس کو آپ نے واپس کردیا اور فرمایا اور مناسب پتھر تلاش کر کے لاؤ۔
حضرت اسماعیل پتھر تلاش کررہی رہے تھے۔
کہ جبل ابو قبیس سے ایک غیبی صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم! میرے پاس آپ کو دینے کی ایک امانت ہے، اسے لیجائیے۔
چنانچہ اس پہاڑ نے حجراسود کو حضرت ابراہیم ؑ کے حوالے کردیا اور آپ نے اس پتھر کو اس کے مقام پر نصب کردیا۔
بعض روایات میں یو ں ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ نے حجر اسود کو لاکر آپ کے حوالہ کیا۔
(ابن کثیر)
اور شرقی گوشہ میں باہر کی طرف زمین سے ڈیڑھ گز کی بلندی پر ایک طاق میں اس کو نصب کیا گیا۔
تعمیر ابراہیمی بالکل سادہ تھی نہ اس پر چھت تھی نہ دروازہ نہ چونہ۔
مٹی سے کام لیا گیا تھا۔
صرف پتھر کی چاردیواری تھی علامہ ازرقی نے تاریخ مکہ میں تعمیر ابراہیمی کا عرض وطول حسب ذیل لکھا ہے۔
بلندی زمین سے چھت تک 9 گز۔
طول حجر اسود سے رکن شامی تک 32 گز۔
عرض رکن شامی سے غربی تک 22 گز۔
گھر بن چکا۔
حضرت جبرئیل ؑ نے مناسک حج سے آگاہ کردیا۔
اب ارشاد باری ہوا ﴿وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (26)
وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ﴾ (الحج: 27)
یعنی ہمارا گھر طوار کرنے والوں، نماز میں قیام کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک کردے اور تمام لوگوں کو پکاردے کہ حج کو آئیں پیدل بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی ہر دور دراز گوشہ سے آئیں گے۔
اس زمانہ میں اعلان واشتہار کے لے وسائل نہیں تھے۔
ویران جگہ تھی، آدم زاد کا کوسوں تک پتہ نہ تھا۔
ابراہیم ؑ کی آواز حدود حرم سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔
لیکن اس معمولی آواز کو قدرت حق تعالیٰ نے مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک اور زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔
مفسرین آیت بالا کے ذیل میں لکھتے ہیں:
فَنَادَى عَلَى جبل أبي قبيس يأيها النَّاس إنَّ رَبّكُمْ بَنَى بَيْتًا وَأَوْجَبَ عَلَيْكُمْ الْحَجّ إلَيْهِ فَأَجِيبُوا رَبّكُمْ وَالْتَفَتَ بِوَجْهِهِ يَمِينًا وَشِمَالًا وَشَرْقًا وَغَرْبًا فَأَجَابَهُ كُلّ مَنْ كَتَبَ لَهُ أَنْ يَحُجّ مِنْ أَصْلَاب الرِّجَال وَأَرْحَام الْأُمَّهَات لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ (جلالین)
یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبل ابو قبیس پر چڑھ کر پکارا اے لوگو! تمہارے رب نے اپنی عبادت کے لئے ایک مکان بنوایا اور تم پر اس کا حج فرض کردیا ہے۔
آپ یہ اعلان کرتے ہوئے شمال وجنوب، مشرق ومغرب کی طرف منہ کرتے جاتے اور آواز بلند کرتے جاتے تھے۔
پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی جا چکی ہے۔
انہو ں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا لبیک اللہم لبیک یا اللہ! ہم حاضر ہیں، یااللہ! ہم تیرے پاک گھر کی زیارت کے لئے حاضرہیں۔
بنائے ابراہیمی کے بعد! ابراہیم ؑ کی یہ تعمیر ایک مدت تک قائم رہی اور اس کی تولیت ونگرانی سیدنا اسماعیل کی اولاد پر اس کا حج فرض کردیاہے۔
آپ یہ اعلان کرتے ہوئے شمال وجنوب،مشرق ومغرب کی طرف منہ کرتے جاتے اور آواز بلند کرتے جاتے تھے۔
پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی جاچکی ہے۔
انھوں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا لبیك اللهم لبیك یا اللہ! ہم حاضر ہیں، یا اللہ! ہم تیرے پاک گھر کی زیارت کے لیے حاضر ہیں۔
تعمیرقصی بن کلاب! ابراہیمی تعمیرکے بعد خانہ کعبہ کو چوتھی مرتبہ قصی بن کلاب قریشی نے تعمیر کیا۔
قصی قریش کے ممتاز افراد میں سے تھے تعمیر کعبہ کے ساتھ ساتھ قومی تعمیر کے لئے بھی اس نے بڑے بڑے اہم کام انجام دیئے۔
تمام قریش کو جمع کر کے بذریعہ تقاریر ان میں اتحاد کی روح پھونکی۔
دار الندوہ کا بانی بھی یہی شحض ہے جس میں قریش اپنے قومی اجتماعات ومذہبی تقریبات نکاح وغیرہ کے لئے جمع ہوا کرتے تھے۔
سقایہ (حاجیوں کو آب زمزم پلانا)
اور رفادہ (یعنی حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام کرنا)
یہ محکمے اسی نے قائم کيے۔
قریش کے قومی فنڈ سے ایک سالانہ رقم منیٰ اور مکہ معظمہ میں لنگر خانوں کے لے مقرر کی۔
اس کے ساتھ چرمی حوض بنوائے جن میں حجاج کے لئے ایام حج میں پانی بھروا دیاجاتا تھا۔
قصی نے اپنے سارے خاندان قریش کو مجتمع کر کے کعبہ شریف کے آس پاس بسایا۔
خدمت کعبہ کے متعلق متعدد کمیٹیاں قائم کیں جن کو مختلف خدمات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
خانہ کعبہ کی چھت پر گوگل کی لکڑی کی چھت بنا کر اطراف میں درختوں کی باڑی لگادی اور اس پر سیاہ غلاف ڈالا۔
یہ تعمیر حضرت رسول پاک ﷺ کے زمانہ طفولیت تک باقی تھی آپ نے اپنے بچپن میں اس کو ملاحظہ فرمایا۔
تعمیرقریش! یہ تعمیر نبوت محمدی سے پانچ سال قبل جب آنحضرت ﷺ کی عمر شریف 35 سال کی تھی، ہوئی۔
اس تعمیر میں اور بنائے ابراہیمی میں1675 سال کا زمانہ بیان کیا جاتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک عورت نزد کعبہ بخور جلا رہی تھی، پردہ شریف میں آگ لگ گئی اور پھیل گئی یہاں تک کہ کعبہ شریف کی چھت بھی جل گئی اور پتھر بھی چٹخ گئے۔
جگہ جگہ سے دیواریں شق ہوگئیں۔
کچھ ہی دنوں بعد سیلاب آیا۔
جس نے اس کی بنیادوں کو ہلا دیا کہ گرجانے کا خطرہ قوی ہوگیا۔
قریش نے اس تعمیر کے لئے چندہ جمع کیا۔
مگر شرط یہ رکھی کہ سود، اجرت زنا، غارت گری اور چوری کا پیسہ نہ لگایا جائے اس لیے خرچ میں کمی ہوگئی۔
جس کا تدارک یہ کیا گیا کہ شمالی رخ سے سات ذراع زمین باہر چھوڑ کر عمارت بنادی۔
اس متروکہ حصہ کا نام حطیم ہے۔
آیت شریفہ ﴿وَإِذ یَرفَعُ إِبرَاهِیمُ القَوَاعِدَ﴾ (البقرة: 127)
کی تفسیرین میں ابن کثیر میں تفصیلات یو آئی ہیں۔
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ يَسَارٍ، فِي السِّيرَةِ:
وَلَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسًا وَثَلَاثِينَ سَنَةً، اجْتَمَعَتْ قُرَيْشٌ لِبُنْيَانِ الْكَعْبَةِ، وَكَانُوا يَهُمُّون بِذَلِكَ (5)
لِيَسْقُفُوهَا، وَيَهَابُونَ هَدْمها، وَإِنَّمَا كَانَتْ رَضما فَوْقَ الْقَامَةِ، فَأَرَادُوا رَفْعَهَا وَتَسْقِيفَهَا، وَذَلِكَ أَنَّ نَفَرًا سَرَقُوا كَنْزَ الْكَعْبَةِ، وَإِنَّمَا كَانَ يَكُونُ فِي بِئْرٍ فِي جَوْف الْكَعْبَةِ، وَكَانَ الذِي وُجد عِنْدَهُ الْكَنْزُ دُوَيْكٌ، مَوْلَى بَنِي مُلَيح بْنِ عَمْرٍو مِنْ خُزَاعَةَ، فَقَطَعَتْ قُرَيْشٌ يَدَهُ. وَيَزْعُمُ النَّاسُ أَنَّ الَّذِينَ سَرَقُوهُ وَضَعُوهُ عِنْدَ دُوَيْكٍ. وَكَانَ الْبَحْرُ قَدْ رَمى بِسَفِينَةٍ إِلَى جُدَّة، لِرَجُلٍ مَنْ تُجَّارِ الرُّومِ، فَتَحَطَّمَتْ، فَأَخَذُوا خَشَبَهَا فأعدُّوه لِتَسْقِيفِهَا. وَكَانَ بِمَكَّةَ رَجُلٌ قِبْطِيٌّ نَجَّارٌ، فَهَيَّأَ لَهُمْ، فِي أَنْفُسِهِمْ بَعْضَ مَا يُصْلِحُهَا، وَكَانَتْ حَيَّةٌ تَخْرُجُ مِنْ بِئْرِ الْكَعْبَةِ التِي كَانَتْ تَطْرَحُ، فِيهَا مَا يُهْدَى لَهَا كُلَّ يَوْمٍ، فَتَتشرق عَلَى جِدَارِ الْكَعْبَةِ، وَكَانَتْ مِمَّا يَهَابُونَ. وَذَلِكَ أَنَّهُ كَانَ لَا يَدْنُو مِنْهَا أَحَدٌ إِلَّا احزَألَّت وَكَشَّتْ وَفَتَحَتْ فَاهَا، فَكَانُوا يَهَابُونَهَا، فَبَيْنَا هِيَ يَوْمًا تَتَشرَّق عَلَى جِدَارِ الْكَعْبَةِ، كَمَا كَانَتْ تَصْنَعُ، بَعَثَ اللَّهُ إِلَيْهَا طَائِرًا فَاخْتَطَفَهَا، فَذَهَبَ بِهَا. فَقَالَتْ قُرَيْشٌ:
إِنَّا لَنَرْجُو أَنْ يَكُونَ اللَّهُ قَدْ رَضي مَا أَرَدْنَا، عِنْدَنَا عَامِلٌ رَفِيقٌ، وَعِنْدَنَا خَشَبٌ، وَقَدْ كَفَانَا اللَّهُ الْحَيَّةَ. فَلَمَّا أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ فِي هَدْمِهَا وَبُنْيَانِهَا، قَامَ أَبُو وَهْبِ بْنُ عَمْرومَخْزُومٍ، فَتَنَاوَلَ مِنَ الْكَعْبَةِ حَجَرًا، فَوَثَبَ مِنْ يَدِهِ حَتَّى رَجَعَ إِلَى مَوْضِعِهِ. فَقَالَ:
يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، لَا تُدخلوا فِي بُنْيَانِهَا مِنْ كَسْبِكُمْ إِلَّا طَيِّبًا، لَا يَدْخُلُ فِيهَا مَهْرُ بَغِي وَلَا بَيْعُ رِبًا، وَلَا مَظْلِمَةُ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ إلی آخرہ۔
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف 35 سال کی تھی کہ قریش نے کعبہ کی از سر نو تعمیر کا فیصلہ اور اس کی دیواروں کو بلند کر کے چھت ڈالنے کی تجویز پاس کی۔
کچھ دنوں کے بعد اور حادثات کے ساتھ ساتھ کعبہ شریف میں چوری کا حادثہ بھی ہوچکا تھا۔
اتفاق سے چور پکڑا گیا، اس کا ہاتھ کاٹا گیا اور تعمیری پروگرام میں مزید پختگی ہوگئی۔
حسن اتفاق سے ہ باقوم نامی ایک رومی تاجر کی کشتی طوفانی موجوں سے ٹکراتی ہوئی جدہ کے کنارے آپڑی اور لکڑی کا سامان ارزاں مل جانے کی اہل مکہ کو تو قع ہوئی۔
ولید بن مغیرہ لکڑی خرید نے کے خیال سے جدہ آیا اور سامان تعمیر کے ساتھ ہی باقوم کو جوفن معماری میں استاد تھا اپنے ساتھ لے گیا۔
ان ہی ایام میں کعبہ شریف کی دیواروں میں ایک خطرناک اژدہا پایا گیا۔
جس کو مارنے کی کسی کو ہمت نہ ہوتی تھی۔
اتفاقاوہ ایک دن دیوار کعبہ پر بیٹھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا پرندہ بھیجا جو اس کو آن کی آن میں اچک کر لے گیا۔
اب قریش نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ومشیت ہمارے ساتھ ہے اس لئے تعمیر کا کام فوراً شروع کردینا چاہئے۔
مگر کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ چھت پر چڑھے اور بیت اللہ کو منہدم کرے۔
آخر جرات کرکے ابن وہب آگے بڑھا اور ایک پتھر جدا کیا تو وہ پتھر ہاتھ سے چھوٹ کر پھر اپنی جگہ پر جاٹھہرا۔
اس وقت ابن وہب نے اعلان کیا کہ ناجائز کمائی کا پیسہ ہر گز ہر گز تعمیر میں نہ لگایا جائے۔
پھر ولید بن مغیرہ نے کدال لے کر یہ کہتے ہوئے کہ اے اللہ! تو جانتا ہے ہماری نیت بخیر ہے اس کا ہدم شروع کردیا بنیاد نکل آئی تو اس کے مختلف حصوں کی تعمیر مختلف قبائل پرتقسیم کردی گئی اور کام شروع ہوگیا۔
آنحضرت ﷺ بھی اپنے چچا حضرت عباس ؓ کے ساتھ شریک کار تھے اور کندھوں پتھر رکھ کر لاتے تھے۔
جب حجر اسود رکھنے کا وقت آیا تو قبائل میں اختلاف پڑگیا۔
ہر خاندان اس شرف کے حصول کا دعویدار تھا۔
آخر مرنے مارنے تک نوبت پہنچ گئی، مگرولید بن مغیرہ نے یہ تجویز پیش کی کہ کل صبح کو جو شخص بھی سب سے پہلے حرم شریف میں قدم رکھے، اس کے فیصلے کو واجب العمل سمجھوچنانچہ صبح کو سب سے پہلے حرم شریف میں آنے والے سیدنا محمد ﷺ تھے۔
سب نے بیک زبان آپ کے فیصلے کو بخوشی ماننے کااعتراف کیا۔
آپ نے حجر اسود کو اپنی چادر مبارک کے وسط میں رکھا اور ہر قبیلہ کے ایک ایک سردار کو اس چادر کے اٹھانے میں شریک کرلیا۔
جب وہ چادر گوشہ کعبہ تک پہنچ گئی تو آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر دیوار میں نصب فرمادیا۔
دیواریں اٹھارہ ہاتھ اونچی کردی گئیں۔
اندرونی فرش بھی پتھر کا بنایا۔
اپنی امتیازی شان قائم رکھنے کے لئے دروازہ قد آدم اونچا رکھا۔
اندرون بیت اللہ شمالاً و جنوباً تین تین ستون قائم کئے۔
جن پر شہتیر ڈال کر چھت پاٹ دی اور رکن عراقی کی طرف اندر ہی اندر زینہ چڑھا یا کہ چھت پر پہنچ سکیں اور شمالی سمت پر پرنالہ لگایا تاکہ چھت کا بارشی پانی حجر میں آکر پڑے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1586
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7243
7243. سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے حطیم کعبہ کے متعلق پوچھا: کیا وہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ میں نے کہا: پھر ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کیا؟ آپ نےفرمایا: ”تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا۔“ میں نے پوچھا: اس کا دروازہ اونچائی پر کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہاری قوم نے اس لیے ایسا کیا ہے تاکہ جسے چاہیں کعبہ میں داخل کریں اور جسے چاہیں منع کر دیں۔ اگر تمہاری قوم زمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتی اور مجھے ان کے دلوں کے انکار کا خطرہ نہ ہوتا تو میں حطیم کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ بھی زمین کے برابر کر دیتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7243]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں ایسا کر دیا تھا۔
شرقی اور غربی دو دروازے بنا دئیے تھے مگر حجاج بن یوسف نے ضد میں آکر اس عمارت کو تڑوا کر پہلی حالت پر کر دیا۔
آج تک اسی حالت پر ہے۔
دوسری روایت میں یوں ہے اس کے دو دروازے رکھتا ہے ایک مشرقی ایک مغربی۔
عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سن کر جیسا منشا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اسی طرح کعبہ کو بنا دیا مگر خدا حجاج ظالم سے سمجھے اس نے کیا کیا کہ عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی ضد سے پھر کعبہ تڑوا کر جیسا جاہلیت کے زمانہ میں تھا ویسا ہی کر دیا اگر کعبہ میں دو دروازے رہتے تو داخلے کے وقت کیسی راحت رہتی‘ ہوا آتی اور نکلتی رہتی اب ایک ہی دروازہ اور روشن دان بھی ندارد۔
ادھر لوگوں کا ہجوم۔
داخلے کے وقت وہ تکلیف ہوتی ہے کہ معاذ اللہ اور گرمی اور حبس کے مارے نماز بھی اچھی طرح اطمینان سے نہیں پڑھی جاتی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7243
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2903
´کعبہ کی تعمیر کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہاری قوم نے جس وقت کعبہ کو بنایا تو ان لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد میں کمی کر دی“ تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر اسے کیوں نہیں بنا دیتے؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تمہاری قوم زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتی ۱؎“ (تو میں ایسا کر ڈالتا) ۲؎ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اگر عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2903]
اردو حاشہ:
(1) ”کعبہ“ تقریباً چوکور اور بلند عمارت کو کہا جاتا ہے۔ بیت اللہ بلند بھی ہے اور تقریباً مربع بھی، اس لیے اس کا نام کعبہ پڑ گیا۔
(2) ”کعبہ کی تعمیر“ عام مورخین کے نزدیک یہ تعمیر بعثت سے صرف پانچ سال پہلے ہوئی اور عام لوگوں کے ساتھ اپ نے بھی اس کی تعمیر میں حصہ لیا بلکہ حجر اسود کی تنصیب آپ کے مبارک ہاتھوں ہی سے ہوئی اور قریش مکہ خون ریزی سے بچ گئے۔
(3) ”کمی کر دی“ کیونکہ ان کے پاس پاک اور حلال مال کی کمی تھی۔ پوری تعمیر زیادہ اخراجات کی متقاضی تھی اسی لیے انھوں نے شمالی جانب سے تقریباً ایک تہائی حصہ چھوڑ دیا۔ اس حصے کو حجر یا حطیم کہا جاتا ہے۔ اس وقت اس حصے پر کندھوں تک دیوار بنی ہوئی ہے۔ اس حصے کے باہر رہنے کا فائدہ یہ ہوگیا کہ جو شخص بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا چاہے، وہ اس حصے میں نماز پڑھ لے ورنہ ہر کسی کے لیے بیت اللہ کھولنا ناممکن ہے۔
(4) ”زمانہ کفر تازہ نہ ہوتا“ رسول اللہﷺ کو خطرہ تھا کہ اگر کعبے کو گرا کر تعمیر کیا گیا تو عرب میں ہر طرف شور مچ جائے گا کہ نئے نبی نے کعبہ ڈھا دیا ہے۔ تعمیر کو کوئی نہیں دیکھے گا۔ نیز وہ لوگ شاید اس بات پر یقین بھی نہ کرتے کہ واقعتا یہ عمارت ناقص ہے، بلکہ وہ اسے ”ہر کہ آمد عمارت نو ساخت“ پر محمول کرتے۔ بعد میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی تعمیر نو نہ کی۔ انھیں رسول اللہﷺ کی خواہش کا علم نہ ہو سکا، یا انھوں نے بھی اسے مصلحت کے خلاف ہی سمجھا۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور اقتدار میں کعبے کی عمارت رسول اللہﷺ کی خواہش کے مطابق تیار کر دی مگر تھوڑے عرصے بعد ہی حجاج نے خلیفہ عبدالملک کے حکم پر دوبارہ پہلی عمارت بحال کر دی۔ اور اب تک وہ اسی حالت پر قائم ہے اور ان شاء اللہ قرب قیامت تک رہے گی۔
(5) ”اگر حضرت عائشہؓ نے … الخ“ اس جملے کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہؓ کے سماع میں شک ہے، بلکہ یہ کلام کا ایک انداز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ چونکہ حضرت عائشہؓ نے بات نقل فرمائی ہے، لہٰذا بیت اللہ کے حطیم کی جانب والے دو کونوں کو نہ چھونے کی ایک معقول وجہ یہ بن سکتی ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اندازہ ٹھیک ہے۔ چونکہ یہ دونوں کونے اپنی اصل جگہ پر نہیں، لہٰذا طواف کے دوران میں ان کونوں کو ہاتھ نہیں لگایا جاتا، جبکہ رکن یمانی کو ہاتھ لگایا جاتا ہے اور حجر اسود (جو عین مشرقی کونے میں ہے) کو منہ یا ہاتھ لگانا مسنون ہے۔ ہاتھ نہ لگ سکے تو اشارہ بھی کافی ہے۔
(6) فتنے اور فساد کے خطرے کے باعث کوئی مباح کام وقتی طور پر ترک کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2903
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2904
´کعبہ کی تعمیر کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو ڈھا دیتا، اور اسے (پھر سے) ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر تعمیر کرتا، اور سامنے کے مقابل میں پیچھے بھی ایک دروازہ کر دیتا، قریش نے جب خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو اسے گھٹا دیا۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2904]
اردو حاشہ:
(1) ”دروازہ پچھلی جانب“ تاکہ لوگ ایک دروازے سے داخل ہوں اور دوسری طرف سے نکلتے رہیں اور رش نہ ہو۔ نبیﷺ کی یہ خواہش بھی تھی کہ بیت اللہ کا دروازہ نیچے زمین کے برابر لگا دیا جائے۔ تاکہ سیڑھی کی ضرورت نہ رہے مگر شاید یہ مصلحت کے خلاف تھا کہ عوام الناس بیت اللہ میں داخل ہوں، لہٰذا آپ کی ان خواہشات پر عمل درآمد نہ ہو سکا، ورنہ کعبہ کی بے احترامی اور شور وغل کا شدید خطرہ تھا۔ جو شخص کعبے میں داخل ہونے کا شوق رکھتا ہو، اس کے لیے حطیم والا کھلا حصہ موجود ہے وہاں وہ اپنی خواہش پوری کر سکتا ہے، جبکہ بیت اللہ کے مقفل ہونے کی وجہ سے اس کا رعب واحترام اور دبدبہ قائم ودائم ہے۔ رسول اللہﷺ کی قبر کو مقفل رکھنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کا احترام قائم رہے، شور وغل سے بچت رہے۔ علاوہ ازیں عوام، جن کی اکثریت فسادِ عقیدہ میں مبتلا ہے، مشرکانہ اعمال سے بھی محفوظ رہے۔ باقی رہا صلاۃ وسلام کا مسئلہ، اس کے لیے اندر جانا ضروری نہیں، باہر سے بھی ممکن ہے بلکہ دنیا کے بعید ترین گوشے سے بھی سلام وصلاۃ بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ اسے پہنچانے کے لیے فرشتے مقرر ہیں اور وہی آپ کو صلاۃ وسلام پہنچاتے ہیں، آپ خود کہیں سے بھی نہیں سنتے، قریب سے، نہ بعید سے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2904
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2905
´کعبہ کی تعمیر کا بیان۔`
ام المؤمنین (عائشہ) رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میری قوم (اور محمد بن عبدالاعلی کی روایت میں تیری قوم) جاہلیت کے زمانہ سے قریب نہ ہوتی تو میں کعبہ کو ڈھا دیتا اور اس میں دو دروازے کر دیتا“، تو جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما وہاں کے حکمراں ہوئے تو انہوں نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے مطابق) کعبہ میں دو دروازے کر دئیے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2905]
اردو حاشہ:
مگر حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حجاج نے دوبارہ پہلی حالت بحال کر دی جیسا کہ حدیث نمبر 2903 میں ذکر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2905
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2913
´حطیم کا بیان۔`
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا اور میرے پاس اسے ٹھوس اور مستحکم بنانے کے لیے اخراجات کی کمی نہ ہوتی تو میں حطیم میں سے پانچ ہاتھ خانہ کعبہ میں ضرور شامل کر دیتا اور اس میں ایک دروازہ بنا دیتا جس سے لوگ اندر جاتے اور ایک دروازہ جس سے لوگ باہر آتے۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2913]
اردو حاشہ:
(1) حجر کے معنیٰ ہیں: وہ جگہ جس کے اردگرد دیوار بنا دی گئی ہو۔ بیت اللہ کی شمالی جانب تقریباً چار فٹ اونچی دیوار بنا دی گئی ہے۔ اسے حجر کہتے ہیں۔ اسی کو حطیم بھی کہا جاتا ہے۔ حطیم کے معنیٰ ہیں: جدا کیا گیا کیونکہ یہ حصہ بیت اللہ سے جدا کیا گیا ہے، لہٰذا اسے حطیم بھی کہتے ہیں۔
(2) ”اتنے اخراجات“ گویا کعبے کی تعمیر نو میں دو رکاوٹیں تھیں۔ بعد میں یہ دونوں رکاوٹیں ختم ہوگئیں مگر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے کعبے کو جوں کا توں ہی رہنے دیا۔
(3) ”پانچ ہاتھ“ گویا حجر میں سے صرف پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ کی ہے۔ بعض روایات میں چھ اور سات ہاتھ کا ذکر بھی ہے۔ بہرحال یہ تمام روایات صحیح ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک پورا حجر بیت اللہ میں داخل ہے۔ لیکن یہ موقف درست نہیں۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2913
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2915
´حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں چاہتی تھی کہ میں بیت اللہ کے اندر داخل ہوں، اور اس میں نماز پڑھوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ اور مجھے حطیم کے اندر کر دیا، پھر فرمایا: ”جب تم بیت اللہ کے اندر جا کر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں آ کر پڑھ لیا کرو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک ٹکڑا ہے۔ لیکن تمہاری قوم نے بناتے وقت اتنا کم کر کے بنایا“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2915]
اردو حاشہ:
دیکھیے، حدیث نمبر: 2914۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2915
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2028
´حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم میں داخل کر دیا، اور فرمایا: ”جب تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہو تو حطیم کے اندر نماز پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ بھی بیت اللہ ہی کا ایک ٹکڑا ہے، تمہاری قوم کے لوگوں نے جب کعبہ تعمیر کیا تو اسی پر اکتفا کیا تو لوگوں نے اسے بیت اللہ سے خارج ہی کر دیا ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2028]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک کا پینتیسواں سال تھا کہ قریش نے بیت اللہ کی خستہ عمارت کو از سر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور عہد کیا کہ اس میں صرف حلال رقم ہی صرف کریں گے۔
رنڈی کی اجرت۔
سود کی دولت۔
اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
مگر حلال مال کی کمی پڑ گئی۔
تو انھوں نے شمال کی طرف سے کعبہ کی لمبائی تقریباً چھ ہاتھ کم کردی۔
یہی ٹکڑا حجر اور حطیم کہلاتا ہے۔
(الرحیق المختوم)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2028
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2955
´طواف کعبہ حطیم سمیت کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے“ میں نے پوچھا: پھر لوگوں (کفار) نے اس کو داخل کیوں نہیں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے پاس خرچ نہیں رہ گیا تھا“ میں نے کہا: اس کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ بغیر سیڑھی کے اس پر چڑھا نہیں جاتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا تمہاری قوم کے لوگوں نے کیا تھا، تاکہ وہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں، اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2955]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خانہ کعبہ کی نئے سرے سے تعمیر رسول اللہ ﷺ کے منصب پر فائز ہونے سے پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے۔
(2)
قریش میں زمانہ جاہلیت میں بھی حلال اور حرام کی تمیز موجود تھی لیکن عملی طور پر اس کا خیال بہت کم رکھا جاتا تھا۔
خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے لیے قریش نے حلال مال خرچ کرنے کی شرط لگائی تھی لیکن حلال مال مکمل خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے کافی نہ ہوا تو انھوں نے حطیم والا حصہ تعمیر کے بغیر چھوڑدیا۔
(3)
مسجد کی تعمیر میں حلال کمائی سے حاصل کیا ہوا مال ہی خرچ کرنا چاہیے۔
(4)
حطیم چونکہ کعبہ کا حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیےاگر کوئی شخص غلطی سے اس کے اندر سے گزرجائے تو وہ چکر شمار نہ کرے ورنہ طواف ناقص رہے گا۔
(5)
خانہ کعبہ کی عمارت کے بارے میں مولانا صفی الرحمن مبارک پوری ؒ نے جو تفصیلات بیان کی ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
خانہ کعبہ کی موجودہ بلندی پندرہ میٹر ہے۔
حجر اسود والی دیوار اور اس کے سامنے کی دیوار یعنی جنوبی اور شمالی دیواریں دس دس میٹر لمبی ہیں۔
حجر اسود مطاف کی زمین سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر ہے۔
دروازہ زمین سے دو میٹر بلند ہے۔
چاروں طرف دیواروں کے ساتھ ساتھ ایک بڑھے ہوئے کرسی نما ضلعے کا گھیرا ہے۔
اسے شاذ ردان کہتے ہیں۔
اس کی اونچائی 35 سینٹی میٹر اور اوسط چوڑائی 30 سنٹی میٹر ہے۔
یہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے جسے قریش نے چھوڑدیا تھا۔ (الرحيق المختوم ص: 93)
(6)
بعض اوقات مصلحت کا خیال کرتے ہوئے افضل کام چھوڑ کر غیر افضل جائز کام کرلینا بہتر ہے۔
جب یہ خطرہ ہو کہ جائز کام کرنے سے کچھ نا مطلوب نتائج سامنے آئینگے جن کی تلافی مشکل ہوگی تو افضل کو ترک کیا جاسکتا ہے۔
(7)
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں کعبہ شریف کی تعمیر اس انداز سے کردی تھی جو رسول اللہﷺ کی خواہش تھی لیکن ان کی شہادت کے بعد کعبہ شریف کو دوبارہ پہلے انداز سے بنادیا گیا۔
(8)
۔
اگر کوئی شخص کعبہ کے اندر نماز پڑھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ حطیم میں نماز پڑھ لے کیونکہ یہ خانہ کعبہ کا ایک حصہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2955
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 876
´حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں چاہتی تھی کہ بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم ۱؎ کے اندر کر دیا اور فرمایا: ”اگر تم بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتی ہو تو حطیم میں نماز پڑھ لو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے، لیکن تمہاری قوم کے لوگوں نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے چھوٹا کر دیا، اور اتنے حصہ کو بیت اللہ سے خارج کر دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 876]
اردو حاشہ:
1؎:
حطیم کعبہ کے شمالی جانب ایک طرف کا چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے،
یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہئے،
اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے اور اُس کے اندر سے آئے تو طواف درست نہ ہو گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 876
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3242
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں ہے، تیری قوم نے جب کعبہ تعمیر کیا، اسے ابراہیمی بنیادوں سے کم کر دیا؟“ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ سلم! کیا آپ صلی اللہ علیہ سلم اسے ابراہیمی بنیادوں پر نہیں لوٹائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیری قوم کفر سے نئی نئی نہ نکلی ہوتی تو میں یہ کام کر دیتا۔“ عبداللہ بن عمر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3242]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بیت اللہ کی تعمیر مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہے،
سب سے پہلی تعمیر فرشتوں نے کی،
پھر آدم علیہ السلام نے،
پھر حضرت شیث علیہ السلام،
طوفان نوح علیہ السلام میں یہ غرقاب ہو گیا اور اس کی بنیادیں بھی نظروں سے اوجھل ہو گئیں،
تو چوتھی دفعہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے باپ بیٹا ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے اس کو نئے سرے سے تعمیر کیا،
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد بنو عمالقہ نے،
پھر بنو جرہم نے،
پھر قصی نے،
آٹھویں بار اس کو قریش نے تعمیر کیا،
اور اس تعمیر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے،
حجراسود مقررہ جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے رکھا تھا،
لیکن چونکہ قریش نے اس کی تعمیر میں خالص حلال مال صرف کیا تھا اور وہ کم تھا اس لیے حطیم والا حصہ چھوڑ دیا گیا اور رکن یمانی اور رکن حجراسود کے سوا باقی دونوں رکن اپنی صحیح بنیادوں پر تعمیر نہ ہو سکے،
اس لیے بیت اللہ کا طواف حجر (حطیم)
کے اوپر سے کیا جاتا ہے لیکن اس طرف والے دونوں رکنوں کا ابراہیمی بنیادوں پر نہ ہونے کی وجہ سے استلام نہیں کیا جاتا،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ کعبہ کو توڑ کر نئے سرے سے تعمیر کریں،
اور اس کی کرسی زمین کے قریب رکھیں تاکہ لوگ اس میں داخل ہو سکیں،
اور اس کے دو دروازے رکھیں تاکہ ایک سے لوگ داخل ہوں اور دوسرے سے باہر نکلیں اور آمدو رفت میں سہولت ہو جائے،
لیکن چونکہ قریش فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے اس لیے خطرہ تھا کہ یہ نئی تعمیر ان کے لیے فتنہ اور آزمائش کا باعث بنے گی اور یہ چیز اس وقت کی دینی مصلحت کے خلاف تھی،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے ایک اولیٰ اور بہتر کام کو ترک دیا،
اس لیے حکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کے مصالح اور فوائد کا لحاظ رکھیں،
لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ شرکیہ اور کفریہ افعال واعمال کا پیش خیمہ اور سبب بنتے رہیں۔
اس لیے اگر سعودی حکام نے پختہ قبروں اور مزاروں کو گرایا تھا تو یہ قابل تعریف کا م کیا تھا نہ کہ قابل مذمت کیا،
نماز کو چھوڑنا اور سودی کاروبار کرنا،
اور تصویر سازی کو اس لیے نظرانداز کیا جا سکتا ہے،
کہ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت ناجائز کاموں کی مرتکب ہے،
اگر ان افعال بد پر ان کا مواخذہ شروع کیا جائے تو عوام میں تنفر،
توحش اور جذباتی ابال پیدا ہو گا،
اور وہ تمام حکومت کے خلاف ہو جائیں گے،
اس طرح اگر زکوٰۃ کے حصول،
حدود وتعزیرات شرعیہ کے اجراء،
اور دیگر احکام شرعیہ کے نفاذ میں کوئی رو رعایت نہیں کرنی چاہیے تو مزاروں اور قبروں پر گنبدوں کی تعمیر کے لیے رو رعایت کیوں برتی جائے،
اور ان کے گرانے پر اعتراض کیوں کیا جائے،
جبکہ یہ کام سعودی علماء کے نزدیک ناجائز ہیں،
اور شرک کا پیش خیمہ ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3242
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3245
عطاء بیان کرتے ہیں کہ جب یزید بن معاویہ کے دور میں، اہل شام نے بیت اللہ پر حملہ کیا اور بیت اللہ جل گیا، اور اس کا جو حال ہو گیا تھا، تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کے حج کے لیے آنے تک اسے اسی طرح چھوڑ دیا، وہ چاہتے تھے لوگوں کو ان کے خلاف جراءت دلائیں یا ان کے خلاف اشتعال دلائیں اور بھڑکائیں، تو جب لوگ واپس جانے لگے، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا، اے لوگو! کعبہ کے بارے میں مشورہ دو، میں اسے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3245]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یزید کے لشکر 64ھ میں اہل مکہ کا محاصرہ کیا تھا،
اور اس سلسلہ میں منجنیق کو استعمال کیا تھا جس کے پتھر بیت اللہ کو لگے اور اس میں آگ بھڑک اٹھی جس سے کعبہ جل گیا،
اور اس کے پتھر کمزور ہو گئے64ھ میں جب یزید کی وفات کے بعد محاصرہ اٹھا لیا گیا،
تو بیت اللہ کو چند ماہ اسی طرح رہنے دیا گیا تاکہ لوگوں کو بنو امیہ کے خلاف بھڑکایا جا سکے کیونکہ (يَجْرَأُهُمْ)
کا معنی ہے ان کے خلاف جرات و شجاعت دکھانے پر آمادہ کر سکیں اور (يُحَرِّبهم)
کا معنی ہے ان کے غیظ و غضب کو بھڑکاسکیں یا ان کو لڑائی پر آمادہ کر سکیں حج کے بعد انھوں نے استخارہ کر کے کعبہ کو نئے سرے سے تعمیر کروایا۔
اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے مطابق اس میں بیت اللہ کے متروکہ حصہ کا اضافہ کیا،
اور اس کے لیے ابراہیمی بنیادوں کو ننگا کر کے لوگوں کو دکھایا گیا تاکہ کسی کے دل میں شک و شبہ نہ گزرے،
جب اس کو ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کردیا گیا تو اس کے چاروں کونوں کا استلام شروع ہو گیا 73ھ میں حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کردئیے گئے تو حج کے بعد اس کو پھر نئے سرے سے پہلی صورت پر تعمیر کردیا گیا اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اضافہ ختم کردیا گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3245
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3248
ابو قزعہ بیان کرتے ہیں، عبدالملک بن مروان بیت اللہ کے طواف کے دوران کہنے لگا، اللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تباہ کرے، کیونکہ وہ ام المؤمنین (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی طرف جھوٹی بات منسوب کرتا ہے، یا ان کے بارے میں جھوٹ کہتا ہے کہ وہ کہتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اگر تیری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا، تو میں بیت اللہ کو توڑ کر اس میں حجر کا حصہ داخل کر دیتا، کیونکہ تیری قوم نے اس کی تعمیر (عمارت) میں کمی کر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3248]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد حجاج بن یوسف نے عبدالملک بن مروان کے حکم سے کعبہ کو دوبارہ قریش کی بنیاد پر تعمیر کردیا تھا،
خلافت بنو عباس میں ہارون رشید نے اس کو دوبارہ ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ کیا،
تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کہا اے امیر المؤمنین اب آپ ایسا نہ کریں لوگ اس کی تعمیر کو کھلونا بنالیں گے اور ہر کہ آمد عمارت نو ساخت کا معاملہ شروع ہو جائے گا،
اس طرح بیت اللہ کی وقعت بھی کم ہو گی اور اس کی ہیبت و عظمت بھی ختم ہو جائے گی،
پھر تمام آئمہ نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی موافقت کی اس لیے اب تک کعبہ کی تعمیر قریش کی تعمیر پر قائم ہے اور کسی نے اس کو بدلنے کی کوشش نہیں کی،
اور حطیم کا تقریباً چھ ہاتھ حصہ بیت اللہ سے باہر رہ گیا ہے اور اپنے اپنے انداز کے مطابق کسی نے اس کو پانچ ہاتھ قراردیا ہے اور کسی نے اس سے زائد،
اس لیے بالا تفاق حطیم کے باہر سے طواف کیا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3248
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:126
126. حضرت اسود سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے فرمایا: حضرت عائشہ ؓ تجھ سے بہت راز کی باتیں فرمایا کرتی تھیں تو کعبے کے متعلق انہوں نے تجھ سے کیا حدیث بیان کی ہے؟ میں نے کہا: مجھ سے انہوں نے یہ کہا تھا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ! اگر تیری قوم کے لوگوں کا زمانہ قریب نہ ہوتا۔۔ ابن زبیر نے کہا: یعنی کفر (جاہلیت) کے قریب نہ ہوتا (نئے نئے اسلام میں داخل نہ ہوئے ہوتے)۔۔ تو میں کعبے کی اس تعمیر کو منہدم کر دیتا اور اس کے دو دروازے بنا دیتا: ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے نکل جاتے۔“ چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے (اپنے دورِ حکومت میں) ایسا ہی کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:126]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود علمائے کرام کو تنبیہ فرمانا ہے کہ ان حضرات کو عوام کے سامنے ہراس جائز عمل سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے غلط فہمی کا اندیشہ ہو ممکن ہے کہ جس عمل کو جائز اور مستحب خیال کر کے کیا جارہا ہو، وہ مصلحت عامہ کے خلاف ہو اور اس عمل کے اختیار کرنے میں بجائے فائدے کے نقصان ہو، وہ علماء سے متنفر ہو جائیں اور ان کے قریب آنے کے بجائے ان سے دور ہو جائیں، اس لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کی ذہن سازی کی جائے مثلاً جوتے سمیت نماز پڑھنا سنت ہے لیکن اگر کسی جگہ لوگ جاہل ہوں اور ایسا کام کرنے سے اختلاف اور فساد کا اندیشہ ہو تو ایسی سنت پر عمل کرنے کو آئندہ کے لیے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
لیکن حکیمانہ انداز سے انھیں اس کی اہمیت بتاتے رہنا ایک داعی کا اہم فریضہ ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ دین کے ضروری کام عوام کے ردعمل کے ڈر سے مؤخر کیے جا سکتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر بت شکنی کے عمل کو کسی رد عمل کے ڈرسے مؤخر نہیں کیا یعنی ہر بات اور کام کے کرنے کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے لیکن یہ کلیہ فرائض و واجبات کے لیے نہیں، انھیں بروقت ہی بجالانا ضروری ہے۔
2۔
واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کو تعمیر کیا تھا اس کی سطح زمین کے برابر تھی اور اس کے دو دروازے تھے۔
ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے نکلتے تھے تاکہ بھیڑ نہ ہو۔
لیکن جب قریش نے اس کی از سر نو تعمیر کی تو اپنے امتیازات اور اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے دو تصرف کیے:
(1)
۔
اسے سطح زمین سے کافی اونچا کردیا تاکہ سیڑھی کے بغیر کوئی اندر داخل نہ ہو سکے اس کے لیے ان کا محتاج رہے۔
(2)
۔
اس کا دروازہ ایک کردیا اور اس پر بھی اپنا آدمی بٹھا دیا تاکہ کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر اندر نہ جا سکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ اسے بنائے ابراہیمی کے مطابق کردیا جائے۔
لیکن اندیشہ تھا کہ قریش کے نومسلم حضرات اسے کہیں اپنے وقار کا مسئلہ نہ بنالیں اور آپ پر ناموری و تفاخر کا شبہ کریں کہ آپ نے قریش کے مشترکہ حق کو اپنی ذات کے لیے خاص کر لیا ہے۔
جب حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کا علم، ہوا تو انھوں نے اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے مطابق کردیا لیکن حجاج بن یوسف نے دوبارہ پھر اسی قریشی نقشے کے مطابق کردیا۔
3۔
تاریخی اعتبار سے بیت اللہ کی تعمیر سات مرتبہ ہوئی ہے سب سے پہلے فرشتوں نے اسے تعمیر کیا، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ فضیلت حاصل کی، اس کے بعد عمالقہ، پھر جرہم، پھر قریش نے تعمیر کیا۔
اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کشف ستر(جسم سے چادر کے اترجانے)
کا واقعہ پیش آیا جس پر آپ بے ہوش ہو کر گرپڑے تھے۔
اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ شرف حاصل کیا۔
آخر میں حجاج بن یوسف نے اسے قریش کی تعمیر کے مطابق کردیا۔
اب بیت اللہ اسی آخری تعمیر پر قائم ہے۔
(عمدۃ القاری: 2 /288)
۔
4۔
صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش نے جب بیت اللہ کو دوبارہ تعمیر کیا تو اخراجات کے لیے وافر رقم مہیا نہ ہو سکی اس بنا پر انھوں نے حطیم کا حصہ کھلا چھوڑ دیا۔
باقی حصے پر چھت ڈال دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی چاہتے تھے کہ پانچ چھ ہاتھ حطیم کے حصے پر بھی چھت ڈال دی جائے لیکن آپ کے پاس ان اخراجات کے لیے رقم نہ تھی اور نئے نئے مسلمانوں کے جذبات کا بھی خیال تھا۔
اس بنا پر آپ نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ بیت اللہ کی تعمیر کا مسئلہ نہ چھیڑا جائے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3245،(1333)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 126
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1586
1586. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: ”اگر تیری قوم کا زمانہ جاہلیت ابھی تازہ نہ ہوتا تو میں کعبہ کو منہدم کرکے جو حصہ ا س سے خارج کردیا گیاتھا اس کو پھر اس میں شامل کردیتا اور اس کا دروازہ زمین سے متصل کردیتا۔ نیز اس میں ایک شرقی اور ایک غربی دو دروازے بنادیتا۔ الغرض میں اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں کے مطابق استوار کرتا۔“ (راوی حدیث کہتا ہے کہ) یہ وہ حدیث ہے جس نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو بیت اللہ کے گرانے پر آمادہ کیا تھا۔ یزید کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں حضرت ابن زبیر ؓ نے اسے گرایا اور بنایا تھا انھوں نے اس میں حطیم کو بھی شامل کردیا تھا۔ میں نے ابراہیمی ؑ بنیادوں کے پتھر دیکھے ہیں جو اونٹ کی کوہان جیسے تھے۔ جریرکہتے ہیں: میں نے یزید سے عرض کیا کہ اس جگہ کی نشاندہی کریں کہ کہاں ہے؟انھوں نے فرمایا: میں ابھی تمھیں دکھاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ہمراہ حطیم میں داخل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1586]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے مکہ مکرمہ اور اس کی عمارت کی فضیلت کے متعلق عنوان قائم کیا ہے۔
اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کے چار مختلف طرق ذکر کیے ہیں۔
ان میں تعمیر کعبہ کا ذکر ہے۔
عمارات مکہ کی فضیلت ان سے ثابت نہیں ہوتی۔
لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ تعمیر کعبہ ہی مکہ کی آباد کاری کا سبب ہے، اس لیے امام بخاری نے صرف ان احادیث پر اکتفا کیا ہے جو کعبہ کی تعمیر پر مشتمل ہیں۔
(2)
ان احادیث کا خلاصہ ہم اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ ؓ کی نبوت سے پانچ سال قبل قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔
اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک عورت کعبہ کے اردگرد بخور جلا رہی تھی جس سے غلاف کعبہ کو آگ لگ گئی۔
وہ اس طرح پھیلی کہ کعبہ کی چھت بھی جل گئی اور اس کے پتھروں میں بھی دراڑیں پڑ گئیں۔
جگہ جگہ سے دیواریں پھٹ گئیں۔
کچھ دنوں بعد سیلاب آیا جس نے بیت اللہ کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب اس کے گرنے کا خطرہ ہوا تو قریش نے اس کی ازسرنو تعمیر کا فیصلہ کیا اور اس کی دیواروں کو اونچا کر کے چھت ڈالنے کی تجویز پاس کی۔
قریش نے اس کارخیر کے لیے چندہ جمع کیا مگر شرط یہ رکھی کہ اس میں سود، اجرتِ زنا، غارت گری اور چوری وغیرہ کا پیسہ نہ لگایا جائے۔
اس طرح حلال کا چندہ بہت کم جمع ہوا۔
اس سے بیت اللہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات پورے نہ ہو سکتے تھے۔
اس کا تدارک اس طرح کیا گیا کہ شمالی رخ سے چھ سات گز زمین باہر چھوڑ کر عمارت بنا دی۔
اس متروکہ حصے کا نام حطیم ہے۔
بیت اللہ کی دیواروں کو اٹھارہ ہاتھ اونچا کر کے اس پر چھت ڈال دی گئی۔
اس کی امتیازی شان قائم رکھنے کے لیے انہوں نے اس کا دروازہ اونچا رکھا۔
وہی دروازہ داخل ہونے اور نکلنے کے لیے تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی وجہ بیان کی ہے تاکہ قریش کی اجارہ داری قائم رہے۔
وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہیں اندر جانے کی اجازت دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔
بیت اللہ کو تعمیر کرتے وقت قریش نے سیدنا ابراہیم ؑ کی تعمیر کے خلاف تین تصرفات کیے:
٭ اس کا کچھ حصہ بیت اللہ سے خارج کر دیا گیا کیونکہ ان کے پاس اتنی رقم نہ تھی۔
٭ اس کے دونوں دروازے بند کر کے بلندی پر ایک ہی دروازہ بنا دیا گیا تاکہ اپنی اجارہ داری قائم رکھیں۔
٭ حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر اس کی تعمیر نہ کی گئی، بلکہ انہیں چھوڑ دیا گیا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کو گرا کر اصلی بنیادوں پر اس کی تعمیر کی اور جو حصہ بیت اللہ سے خارج کر دیا گیا تھا، اسے بیت اللہ میں داخل کر دیا گیا، اسی طرح اس کے شرقی اور غربی دو دروازے کھول دیے اور انہیں زمین کے متصل رکھا گیا۔
جب حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو شہید کر دیا گیا تو حجاج بن یوسف نے قریش کی بنیادوں پر کعبہ کی تعمیر کی اور اب انہیں بنیادوں پر کعبہ موجود ہے۔
عباسی خلفاء نے امام مالک کے ہاں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ہم بیت اللہ کو عبداللہ بن زبیر کی بنیادوں پر بنانا چاہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا:
اسے اپنی حالت پر رہنے دو، مبادا بادشاہوں کے لیے محض تفریح طبع اور کھلونا بن جائے۔
(فتح الباري: 566/3) (4)
اب سعودی حکومت نے بیت اللہ سمیت اس مقدس شہر کو جو ترقی دی ہے وہ اس کا ایسا سنہری کارنامہ ہے جو ان کی نیک نامی اور فراخ دلی کی علامت ہے۔
حرمین شریفین کی ترقی اور تعمیر جدید ایسے کارنامے ہیں جن کی وجہ سے وہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے حد درجہ قابل تشکر ہیں۔
شكر الله سعيهم و كلل جهودهم آمين
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1586
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7243
7243. سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے حطیم کعبہ کے متعلق پوچھا: کیا وہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ میں نے کہا: پھر ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کیا؟ آپ نےفرمایا: ”تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا۔“ میں نے پوچھا: اس کا دروازہ اونچائی پر کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہاری قوم نے اس لیے ایسا کیا ہے تاکہ جسے چاہیں کعبہ میں داخل کریں اور جسے چاہیں منع کر دیں۔ اگر تمہاری قوم زمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتی اور مجھے ان کے دلوں کے انکار کا خطرہ نہ ہوتا تو میں حطیم کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ بھی زمین کے برابر کر دیتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7243]
حدیث حاشیہ:
1۔
قریش نے جب بیت اللہ کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہا تو انھوں نے عزم کیا کہ اس پر حلال کی رقم خرچ کی جائے گی تو ان کے پاس اتنامال جمع نہ ہو سکا کہ جس سے پورا بیت اللہ تعمیر ہوسکتا، اس لیے انھوں نے حطیم کوچھوڑ کر باقی بیت اللہ پر چھت ڈال دی۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جذبے کی قدر کی کہ آئندہ وہ انھی بنیادوں پر تعمیر ہوتا رہے گا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اسے تعمیر کیا تو حطیم کو اس میں شامل کر دیا اور زمین کے برابر اس کے شرقی اورغربی دروازے رکھ دیے تھے لیکن حجاج بن یوسف نے اسے مسمار کر کے دوبارہ انھی بنیادوں پر تعمیر کر دیا۔
2۔
اس حدیث میں (لَوْلا)
کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7243