مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زیادہ صحابہ کے ساتھ (عمرہ کے لیے) نکلے، یہاں تک کہ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ نے ہدی کے جانور کو قلادۃ پہنایا اور اس کا اشعار ۱؎ کیا اور عمرے کا احرام باندھا، یہ حدیث بڑی حدیث سے مختصر کی ہوئی ہے۔
وضاحت: ۱؎: تقلید اور اشعار کی تفسیر کے لیے دیکھئیے حدیث رقم ۲۶۸۳ کا حاشیہ نمبر ۲۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2772
اردو حاشہ: (1)”ایک ہزار اور چند سو“ دیگر روایات کی تصریح کے مطابق ان کی تعداد 1400 تھی، بعض حضرات نے 1500 بھی کہی ہے۔ پہلی بات زیادہ معتبر ہے۔ (2)”قلادے ڈالے“ قلادہ ان جانوروں کو پہنایا جاتا تھا جنھیں حرم میں ذبح ہونے کے لیے بھیجا جاتا تھا تاکہ یہ نشانی بن جائے اور کوئی شخض ان کی توہین نہ کرے یا ان پر زیادتی نہ کرے۔ قلادہ ایک سادہ سا ”ہار“ ہوتا تھا۔ کسی رسی میں جوتے کا ٹکڑا، درخت کا چھلکا یا ایسی ہی کوئی سادہ چیز ڈال کر جانور کے گلے میں ڈال دیتے تھے۔ کوئی فخریہ نشانی نہیں ہوتی تھی، لہٰذا یہ سادگی قائم رہنی چاہیے۔ (3)”اشعار کیا“ یہ بھی قربانی کے اونٹوں کی نشانی ہوتی تھی۔ اونٹوں کے علاوہ دوسرے جانوروں کو نہیں کیا جاتا تھا۔ اشعار یہ ہے کہ اونٹ کی کوہان کی دائیں جانب نیزے یا برچھے کے ساتھ ہلکا سا زخم کیا جاتا تھا اور نکلنے والے خون کو وہیں مل دیا جاتا تھا۔ اس سے پتہ چل جاتا تھا کہ یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ اگر گم ہو جائے تو دوسرے لوگ خود ہی حاجیوں کو پہنچا دیں۔ کوئی چور وغیرہ اسے نہ چرائے اور اگر بالفرض اسے راستے میں ذبح کرنا پڑے تو صرف فقیر ہی اسے کھائیں، وغیرہ۔ یہ کام قلادہ سے بھی چل سکتا تھا مگر چونکہ قلادہ گلے سے اتر سکتا ہے، ٹوٹ سکتا ہے وغیرہ، لہٰذا ایسا نشان لگایا گیا جو زائل نہ ہو سکے۔ (4) اشعار سنت ہے۔ رسول اللہﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام بلا کھٹکے کرتے رہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اشعار کو بدعت کہا۔ ان کے بقول یہ مثلہ ہے اور جانور کو بلا وجہ تکلیف دینا ہے، لہٰذا نہیں کرنا چاہیے، مگر حیرانی ہے کہ اس بات کا علم رسول اللہﷺ کو ہوا نہ خلفائے راشدین کو اور نہ دیگر صحابہ کرام و تابعین عظام کو جبکہ یہ بدیہی باتیں ہیں۔ امام صاحب کی طرف سے ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کے آپﷺ کے دور میں کفار جانوروں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور جب تک انھیں اشعار نہ کیا جاتا، وہ انھیں قربانی کے جانور نہیں سمجھتے تھے اور لوٹنے سے باز نہیں آتے تھے، لہٰذا آپ نے مجبوراً ایسا کیا۔ یہ بات صرف عمرۂ حدیبیہ کی حد تک چل سکتی ہے۔ حجۃ الوداع میں تو پورا علاقہ اسلامی حکومت کے ماتحت آچکا تھا، پھر بعد میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں تو حکومت عرب سے باہر نکل کر عجم کے وسیع علاقوں تک محیط ہو چکی تھی۔ اس وقت اشعار کس کے ڈر سے ہوگا؟ بہرحال امام صاحب کا قول درست نہیں۔ اسی وجہ سے ان کے شاگردان رشید بھی اس مسئلے میں ان کے ساتھ متفق نہیں۔ (5) اشعار چونکہ کوہان پر کیا جاتا ہے اور یہ چربی والی جگہ ہے، لہٰذا یہ زخم اونٹ کو محسوس نہیں ہوتا۔ جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ زیادہ خون بھی نہیں بہتا۔ اونٹ جیسے عظیم الجثہ جانور کے لیے یہ زخم نہ ہونے کے برابر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2772
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1695
1695. حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ زمانہ حدیبیہ میں ایک ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو نبی ﷺ نے اپنی قربانیوں کو قلادہ پہنایا اور ان کا اشعار کیا، پھر عمرے کا احرام باندھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1695]
حدیث حاشیہ: اشعار کے معنی قربانی کے اونٹ کے دائیں کوہان میں نیزے سے ایک زخم کردینا، اب یہ جانور بیت اللہ میں قربانی کے لیے نشان زدہ ہوجاتا تھا اور کوئی بھی ڈاکو چور اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اب بھی یہ اشعار رسول کریم ﷺ کی سنت ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مکروہ قرار دیا ہے جو سخت غلطی اور سنت نبوی کى بے ادبی ہے۔ امام ابن حزم نے کہا کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے سوا اور کسی سے اس کی کراہیت منقول نہیں، طحاوی نے کہا کہ حضرت امام ابوحنیفہ نے اصل اشعار کو مکروہ نہیں کہا بلکہ اس میں مبالغہ کرنے کو مکروہ کہا ہے جس سے اونٹ کی ہلاکت کا ڈر ہو، اورحضرت امام ابوحنیفہ سے جو مسلمانوں کے پیشوا ہیں، ہمارا یہی گمان ہے۔ اصل اشعار کو وہ کیسے مکروہ کہہ سکتے ہیں اس کا سنت ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ (وحیدی) قلادہ جوتیوں کا ہار جو قربانی کے جانوروں کے گلے میں ڈال کر گویا اسے بیت اللہ میں قربانی کے لیے نشان لگا دیا جاتا تھا، قلادہ اونٹ بکری گائے سب کے لیے ہے اور اشعار کے بارے میں حضرت علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: وفيه مشروعية الإشعار وهو أن يكشط جلد البدنة حتى يسيل دم ثم يسلته فيكون ذلك علامة على كونها هديا وبذلك قال الجمهور من السلف والخلف وذكر الطحاوي في اختلاف العلماء كراهته عن أبي حنيفة وذهب غيره إلى استحبابه للاتباع حتى صاحباه أبو يوسف ومحمد فقالا هو حسن قال وقال مالك يختص الإشعار بمن لها سنام قال الطحاوي ثبت عن عائشة وبن عباس التخيير في الإشعار وتركه فدل على أنه ليس بنسك لكنه غير مكروه لثبوت فعله عن النبي صلى الله عليه وسلم إلی آخرہ۔ (فتح الباري) یعنی اس حدیث سے اشعار کی مشروعیت ثابت ہے وہ یہ کہ ہدی کے چمڑے کو ذرا سا زخمی کرکے اس سے خون بہاد دیا جائے بس وہ اس کے ہدی ہونے کی علامت ہے اور سلف اور خلف سے تمام جمہور نے اس کی مشروعیت کا اقرار کیا ہے اور امام طحاوی نے اس بارے میں علماء کا اختلاف ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور دوسرے لوگ اس کے مستحب ہونے کے قائل ہیں حتی کہ امام ابوحنیفہ ؒ کے ہر دو شاگردان رشید حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد ؒ بھی اس کے بہتر ہونے کے قائل ہیں۔ حضرت امام مالک ؒ کا قول ہے کہ اشعار ان جانوروں کے ساتھ خاص ہے جن کے کوہان ہیں۔ طحاوی نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ثابت ہے کہ اس کے یے اختیار ہے کہ یا تو اشعار کرے یا نہ کرے، یہ اسی امر کی دلیل ہے کہ اشعار کوئی حج کے مناسک سے نہیں ہے لیکن وہ غیر مکروہ ہے اس لیے کہ اس کا کرنا آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے۔ مطلقاً اشعار کو مکروہ کہنے پر بہت سے متقدمین نے حضرت ابوحنیفہ پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کے جوابات امام طحاوی نے دیئے ہیں، ان میں سے یہ بھی کہ حضرت امام ابوحنیفہ نے مطلق اشعار کا انکار نہیں کیا بلکہ ایسے مبالغہ کے ساتھ اشعار کرنے کو مکروہ بتلایا ہے جس سے جانور ضعیف ہو کر ہلاکت کے قریب ہو جائے۔ جن لوگوں نے اشعار کو مثلہ سے تشبیہ دی ہے ان کا قول بھی غلط ہے۔ اشعار صرف ایسا ہی ہے جیسے کہ ختنہ اور حجامت اور نشانی کے لیے بعض جانوروں کے کان چیر دینا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب مثلہ کے ذیل میں نہیں آسکتے، پھر اشعار کیوں کر آسکتا ہے۔ اسی لیے ابوصائب کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں امام وکیع کے پاس تھے۔ ایک شخص نے کہا کہ امام نخعی سے اشعار کا مثلہ ہونا منقول ہے۔ امام وکیع نے خفگی کے لہجہ میں فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ نے اشعار کیا اور تو کہتا ہے کہ ابراہیم نخعی نے ایسا کہا، حق تو یہ ہے کہ تجھ کو قید کر دیا جائے۔ (فتح) قرآن مجید کی آیت شریفہ: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ....﴾(الحجرات: 1) کا مفہوم بھی یہی ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول سے کوئی امر صحیح طور پر ثابت ہو وہاں ہرگرز قیل و قال و أقوال و آراء کو داخل نہ کیا جائے کہ یہ خدا و رسول ﷺ کی سخت بے ادبی ہے۔ مگر صد افسوس ہے کہ امت کا جم غفیر اسی بیماری میں مبتلا ہے، اللہ پاک سب کو تقلید جامد سے شفائے کامل عطا فرمائے آمین۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ جب کسی ہدی کا اشعار کرتے تو اسے قبلہ رخ کر لیتے اور بسم اللہ و اللہ أکبر کہہ کر اس کے کوہان کو زخمی کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1695
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4158
4158. حضرت مردان اور حضرت مسور بن مخرمہ ؓ دونوں سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ صلح حدیبیہ کے موقع پر تقریباایک ہزار صحابہ کرام ؓ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ جب آپ ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانی کے جانوروں کو ہار پہنایا اور ان پر نشان لایا، پھر وہاں سے عمرے کا احرام باندھا۔ راوی حدیث (علی بن عبداللہ المدینی) نے کہا: میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں نے اس حدیث کو سفیان سے کتنی مرتبہ سنا حتی کہ میں نے ایک مرتبہ انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے زہری سے نشان لانے اور ہار پہنانے کے متعلق یاد نہیں رہا، اس لیے میں نہیں جانتا کہ اس سے ان کی مراد صرف نشان لگانے اور ہار پہنانے سے تھی یا اس سے مراد پوری حدیث تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4158]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں صلح حدیبیہ کا ذکر ہے حدیث اور باب میں یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4158
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1695
1695. حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ زمانہ حدیبیہ میں ایک ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو نبی ﷺ نے اپنی قربانیوں کو قلادہ پہنایا اور ان کا اشعار کیا، پھر عمرے کا احرام باندھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1695]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ یہ عنوان قائم کر کے اور حدیث لا کر حضرت مجاہد کے موقف کی تردید کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ احرام باندھنے کے بعد قربانی کا اشعار کرنا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے پہلے اپنی قربانی کو قلادہ پہنایا، پھر احرام باندھا۔ (2) اس تقلید و اشعار کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ ان جانوروں کو کچھ نہ کہا جائے، نیز اگر وہ جانور دوسرے جانوروں سے گھل مل جائے تو اس کی تمیز ہو سکے۔ اگر گم ہو جائے تو اسے پہچانا جا سکے۔ جن حضرات نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے وہ بہت دور کی کوڑی لائے ہیں۔ (فتح الباري: 686/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1695
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4158
4158. حضرت مردان اور حضرت مسور بن مخرمہ ؓ دونوں سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ صلح حدیبیہ کے موقع پر تقریباایک ہزار صحابہ کرام ؓ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ جب آپ ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانی کے جانوروں کو ہار پہنایا اور ان پر نشان لایا، پھر وہاں سے عمرے کا احرام باندھا۔ راوی حدیث (علی بن عبداللہ المدینی) نے کہا: میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں نے اس حدیث کو سفیان سے کتنی مرتبہ سنا حتی کہ میں نے ایک مرتبہ انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے زہری سے نشان لانے اور ہار پہنانے کے متعلق یاد نہیں رہا، اس لیے میں نہیں جانتا کہ اس سے ان کی مراد صرف نشان لگانے اور ہار پہنانے سے تھی یا اس سے مراد پوری حدیث تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4158]
حدیث حاشیہ: 1۔ ھدی قربانی کےجانوروں کو کہاجاتا ہے بکریوں کے گلے میں ہار پہنایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ یہ قربانی کےجانورہیں اور ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں اور اونٹ کو کوہان کی دائیں جانب سے نیزہ مار کر خون آلود کیا جاتا ہے۔ اس کامقصد بھی صرف لوگوں کا مطلع کرنا ہوتا ہے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ روانگی سے پہلے عمرہ کرنے کا اعلان کیا۔ بے شمار صحابہ کرام ؓ جو خانہ کعبہ دیکھنے کی تڑپ رکھتے تھے عمرے کے لیے تیار ہوگئے۔ مقام ذوالحلیفہ پر احرام باندھا اور آٹھ دن سفر کرکے مکہ مکرمہ کے قریب پہنچ گئے تھے۔ عسفان کے قریب آپ کو پتہ چلا کہ قریش آپ سے لڑنے اور بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ آپ نے راستہ تبدیل کرلیا۔ جب ثنیۃ المراد پہنچے توآپ کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگوں نے کہا: آ پ کی اونٹنی اَڑ گئی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”قصواء اڑی نہیں اور نہ اس کی یہ عادت ہی ہے بلکہ اسے اس ہستی نے روکاہے جس نے ہاتھی کو روک دیا تھا۔ “ پھرآپ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!یہ لوگ جس معاملے کا مطالبہ کریں گے جس میں اللہ کی حرمتوں کی تعظیم ہوگی میں اسے ضرورتسلیم کروں گا۔ “ اس کے بعد اونٹنی اچھل کرکھڑی ہوگئی۔ اس کے بعد آپ نے مقام حدیبیہ میں ایک چشمے پر نزول فرمایا۔ یہ حدیث متعدد مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ (صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731۔ 2732)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4158