سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book of Zakah
81. بَابُ : الصَّدَقَةِ عَلَى الْيَتِيمِ
81. باب: یتیم کو صدقہ دینے کا بیان۔
Chapter: , Giving Charity To Orphans
حدیث نمبر: 2582
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرني زياد بن ايوب، قال: حدثنا إسماعيل ابن علية، قال: اخبرني هشام، قال: حدثني يحيى بن ابي كثير، قال: حدثني هلال، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، قال: جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر وجلسنا حوله فقال:" إنما اخاف عليكم من بعدي ما يفتح لكم من زهرة، وذكر الدنيا وزينتها"، فقال رجل: او ياتي الخير بالشر، فسكت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل له: ما شانك تكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا يكلمك؟ قال: وراينا انه ينزل عليه فافاق يمسح الرحضاء وقال:" اشاهد السائل إنه لا ياتي الخير بالشر، وإن مما ينبت الربيع يقتل او يلم إلا آكلة الخضر، فإنها اكلت حتى إذا امتدت خاصرتاها استقبلت عين الشمس، فثلطت، ثم بالت، ثم رتعت، وإن هذا المال خضرة حلوة، ونعم صاحب المسلم هو إن اعطى منه اليتيم والمسكين وابن السبيل، وإن الذي ياخذه بغير حقه كالذي ياكل ولا يشبع، ويكون عليه شهيدا يوم القيامة".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي هِلَالٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ فَقَالَ:" إِنَّمَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي مَا يُفْتَحُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةٍ، وَذَكَرَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا"، فَقَالَ رَجُلٌ: أَوَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ، فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا شَأْنُكَ تُكَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُكَلِّمُكَ؟ قَالَ: وَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ فَأَفَاقَ يَمْسَحُ الرُّحَضَاءَ وَقَالَ:" أَشَاهِدٌ السَّائِلُ إِنَّهُ لَا يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ، وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ إِلَّا آكِلَةُ الْخَضِرِ، فَإِنَّهَا أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلْتَ عَيْنَ الشَّمْسِ، فَثَلَطَتْ، ثُمَّ بَالَتْ، ثُمَّ رَتَعَتْ، وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، وَنِعْمَ صَاحِبُ الْمُسْلِمِ هُوَ إِنْ أَعْطَى مِنْهُ الْيَتِيمَ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ، وَإِنَّ الَّذِي يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَيَكُونُ عَلَيْهِ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھے، آپ نے فرمایا: اپنے بعد میں تمہارے متعلق دنیا کی رونق و شادابی جس کی تمہارے اوپر بہتات کر دی جائے گی سے ڈر رہا ہوں، پھر آپ نے دنیا اور اس کی زینت کا ذکر کیا۔ تو ایک شخص کہنے لگا: کیا خیر شر لے کر آئے گا؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ تو اس سے کہا گیا: تیرا کیا معاملہ ہے کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتا ہے، اور وہ تجھ سے بات نہیں کرتے؟ اس وقت ہم نے دیکھا کہ آپ پر وحی اتاری جا رہی تھی۔ پھر وحی موقوف ہوئی تو آپ پسینہ پوچھنے لگے، اور فرمایا: کیا پوچھنے والا موجود ہے؟ بیشک خیر شر نہیں لاتا ہے، مگر خیر اس سبزہ کی طرح ہے جسے موسم ربیع (بہار) اگاتا ہے، (جانور کو بدہضمی سے) مار ڈالتا ہے، یا مرنے کے قریب کر دیتا ہے مگر اس گھاس کو کھانے والے کو (نقصان نہیں پہنچاتا) جو کھائے یہاں تک کہ جب اس کی دونوں کوکھیں بھر جائیں تو وہ دھوپ میں جا کر سورج کا سامنا کرے، اور پائخانہ پیشاب کرے، پھر (جب بھوک محسوس کرے تو) پھر چرے (اس طرح) یقیناً یہ مال بھی ایک سرسبز و شیریں چیز ہے۔ وہ مسلمان کا کیا ہی بہترین ساتھی ہے اگر وہ اس سے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کو دے، اور جو شخص ناحق مال حاصل کرتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا، اور یہ قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ ہو گا ۲؎۔

وضاحت:
۱؎: یعنی میرے بعد جو فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گا اور جو مال و دولت اس سے تمہیں حاصل ہو گی، اس سے مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم دنیا کی رنگینیوں اور عیش و عشرت میں پڑ کر اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو جاؤ، اور آخرت کو بھول بیٹھو۔ ۲؎: کہ اس نے مجھے ناحق حاصل کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 28 (921) (مختصراً)، الزکاة 47 (1465)، الجھاد 37 (2842)، الرقاق 7 (6427)، صحیح مسلم/الزکاة 41 (1052)، (تحفة الأشراف: 4166)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الفتن18 (3995)، مسند احمد (3/7، 21، 91) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2582 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2582  
اردو حاشہ:
(1) مجھے تو اس بات کا ڈر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے فقر کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: مجھے فقر کا کوئی خطرہ نہیں، یعنی اگر تم فقیر رہو تو کوئی خطرے کی بات نہیں بلکہ خطرہ مال دار ہونے میں ہے کہ کہیں فتنے میں نہ پڑ جاؤ۔ یا یہ مطلب ہے کہ مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم فقیر رہو گے بلکہ خطرہ ہے، تم مال دار ہو جاؤ گے۔
(2) کیا خیر بھی… الخ یعنی مال تو اچھی چیز ہے۔ یہ کون سی خطرناک چیز ہے جو آپ اسے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
(3) موسم بہار کا اگایا ہوا سبزہ۔ حالانکہ یہ جانوروں کے لیے بہترین غزا ہوتا ہے مگر اس کا غلط استعمال موت کا سبب بن جاتا ہے۔ اسی طرح مال کا غلط حصول یا استعمال بھی دین کے لیے خطرناک ہے۔
(4) سبز اور میٹھا ہے۔ سبزہ جانور کو اور میٹھی چیز انسان کو مرغوب ہوتی ہے، اس لیے ان میں بے اعتدالی ہو جاتی ہے۔ نتیجہ نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی حالت مال کی ہے۔
(5) مگر سیر نہیں ہوتا۔ یہ بھی ایک بیماری ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ شخص زیادہ کھانے کی وجہ سے مر جاتا ہے۔
(6) یتیم صدقے کا حق دار ہے بشرطیکہ وہ فقیر بھی ہو۔ اسی طرح مسافر بھی۔
(7) مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ مال ہے مگر ضرورت سے کم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2582   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.