عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھاؤ، صدقہ کرو، اور پہنو، لیکن اسراف (فضول خرچی) اور غرور (گھمنڈ و تکبر) سے بچو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/اللباس23 (3605)، (تحفة الأشراف: 8773)، مسند احمد (2/181، 182) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابن ماجه (3605) قتادة مدلس وعنعن،وعلقه البخاري فى أول كتاب اللباس (قبل ح5783) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 341
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2560
اردو حاشہ: (1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب اللباس سے پہلے معلق بیان کیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد اور متابعات کی بنا پر حسن قرر دیا ہے۔ بنا بریں دلائل کی رو سے اصولی طور پر یہ روایت حسن درجے کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 23/ 59، 60، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 11/ 294، 295، 312، 313 وھدایة الرواة: 4/ 217، 218) (2) فضول خرچی سے مراد ضرورت سے زائد خرچ کرنا یا حرام میں خرچ کرنا ہے۔ اور تکبر سے مراد یہ ہے کہ دوسروں کو حقیر سمجھے جو کھانے، پینے اور لباس وغیرہ میں اس سے کم درجے میں ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2560
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3605
´جو چاہو پہنو بس اسراف اور تکبر نہ ہو (یعنی فضول خرچی اور گھمنڈ سے ہٹ کر ہر لباس پہنو)۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھاؤ پیو، صدقہ و خیرات کرو، اور پہنو ہر وہ لباس جس میں اسراف و تکبر (فضول خرچی اور گھمنڈ) کی ملاوٹ نہ ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3605]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) اسلام ترک دنیا اور رہبانیت کی دعوت نہیں دیتا بلکہ کمائی اور خرچ کی ناجائز راہوں سے روکتا ہے۔
(2) اپنی ذات پر، بیوی بچوں پر، والدین اور عزیز و اقارب پر خرچ کرنا اور ان کی جائز ضروریات پوری کرنا نیکی ہے۔
(3) اسراف اور فضول خرچی کا مطلب جائز مقام پر ناجائز حد تک خرچ کرنا ہے۔ سادگی مسلمان کی شان ہے۔
(4) ناجائز مقام پر تھوڑا خرچ بھی گناہ ہے اور تبذیز میں شامل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ المُبَذِّرينَ كانوا إِخوانَ الشَّياطينِ ۖ وَكانَ الشَّيطانُ لِرَبِّهِ كَفورًا ﴾(بنی اسرائیل 17: 27) ”بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے رب کی بہت زیادہ نا شکری کرنے والا ہے۔“
(5) تھوڑے مہمانوں کے لئے بہت زیادہ کھانے تیار کر لینا اور پھر انہیں ضائع کردینا بھی تبذیز میں شامل ہے۔ اسی طرح اپنا مال وقت ضائع کرنے والی بے فائدہ تفریح پر خرچ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
(6) اسراف و تبذیز عام طور پر دوسروں پر برتری کے اظہار کے لئے کیا جاتا ہے جو خود ایک گناہ ہے۔ ایسی چیزوں پر خرچ ہونے والی رقم سے غریبوں کی مدد کی جائے تو دنیوی اور اخروی فوائد حاصل ہوں گے۔
(7) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ وہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت کو امام بخاری نے بھی کتاب اللباس سے پہلے معلق بیان کیا ہے مزید لکھتے ہیں کہ اس کے تخلیق التعلیق وغیرہ میں موقوف شواہد موجود ہیں لہٰذا اس بات سے اور دیگر محققیق کی بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 11 /94، 95 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد، رقم: 3605، وهداية الرواة: 4/ 217، 218)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3605