(مرفوع) اخبرنا عمران بن بكار، قال: حدثنا علي بن عياش، قال: حدثنا شعيب، قال: حدثني ابو الزناد، مما حدثه عبد الرحمن الاعرج، مما ذكر , انه سمع ابا هريرة يحدث به، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال:" قال رجل: لاتصدقن بصدقة، فخرج بصدقته فوضعها في يد سارق، فاصبحوا يتحدثون تصدق على سارق، فقال: اللهم لك الحمد على سارق، لاتصدقن بصدقة، فخرج بصدقته فوضعها في يد زانية، فاصبحوا يتحدثون، تصدق الليلة على زانية، فقال: اللهم لك الحمد على زانية، لاتصدقن بصدقة، فخرج بصدقته فوضعها في يد غني، فاصبحوا يتحدثون تصدق على غني , قال: اللهم لك الحمد على زانية وعلى سارق وعلى غني، فاتي فقيل له: اما صدقتك فقد تقبلت، اما الزانية فلعلها ان تستعف به من زناها، ولعل السارق ان يستعف به عن سرقته، ولعل الغني ان يعتبر فينفق مما اعطاه الله عز وجل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ، مِمَّا ذَكَرَ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ بِهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" قَالَ رَجُلٌ: لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى سَارِقٍ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى سَارِقٍ، لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ زَانِيَةٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ، تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ، لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ غَنِيٍّ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى غَنِيٍّ , قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ وَعَلَى سَارِقٍ وَعَلَى غَنِيٍّ، فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ: أَمَّا صَدَقَتُكَ فَقَدْ تُقُبِّلَتْ، أَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ بِهِ مِنْ زِنَاهَا، وَلَعَلَّ السَّارِقَ أَنْ يَسْتَعِفَّ بِهِ عَنْ سَرِقَتِهِ، وَلَعَلَّ الْغَنِيَّ أَنْ يَعْتَبِرَ فَيُنْفِقَ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص نے کہا: میں ضرور صدقہ دوں گا، تو وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اس نے اسے ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا، صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ ایک چور کو صدقہ دیا گیا ہے، اس نے کہا: اللہ تیرا شکر ہے چور کے ہاتھ میں چلے جانے پر بھی ۱؎، میں اور بھی صدقہ دوں گا چنانچہ (دوسرے دن بھی) وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اس نے اسے لے جا کر ایک زانیہ عورت کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانیہ کو صدقہ دیا گیا ہے۔ تو اس نے پھر کہا: اللہ تیرا شکر ہے زانیہ کے ہاتھ میں چلے جانے پر بھی، میں پھر صدقہ دوں گا، چنانچہ (تیسرے دن) پھر وہ صدقہ کا مال لے کر نکلا، اور ایک مالدار شخص کو تھما آیا، پھر صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ ایک مالدار شخص کو صدقہ کیا گیا ہے، اس نے کہا: اللہ تیرا شکر ہے، زانیہ، چور اور مالدار کو دے دینے پر بھی۔ تو خواب میں اس کے پاس آ کر کہا گیا: رہا تیرا صدقہ تو وہ قبول کر لیا گیا ہے، رہی زانیہ تو (صدقہ پا کر) شاید وہ زناکاری سے باز آ جائے اور رہا چور تو صدقہ پا کر شاید وہ اپنی چوری سے باز آ جائے، اور رہا مالدار آدمی (تو صدقہ پا کر) شاید وہ اس سے سبق سیکھے اور اللہ عزوجل نے اسے جو دولت دے رکھی ہے اس میں سے خرچ کرنے لگے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 14 (1421)، (تحفة الأشراف: 13735)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الزکاة 24 (1022)، مسند احمد 2/322 (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2524
اردو حاشہ: (1) مندرجہ بالا واقعہ بنی اسرائیل کا ہے۔ جب تک ہماری شریعت پہلی شریعتوں کی کسی بات کی تردید نہ کرے، اس وقت تک پہلی بات بھی حجت ہے۔ مذکورہ واقعہ بھی نبیﷺ نے بیان فرما کر تصدیق فرما دی، لہٰذا حجت ہے۔ اسی طرح کسی کا خواب حجت تو نہیں ہوتا مگر نبی کریمﷺ کی تصدیق سے یہ بھی حجت بن گیا۔ (2) اس واقعے سے معلوم ہوا کہ اگر غلطی یا لا علمی سے زکاۃ کسی ایسے شخص کو دے دی گئی ہو جو مستحق نہیں تھا تو ادا کرنے والے شخص پر کوئی ملامت نہیں، نیز وہ بریٔ الذمہ ہو جاتا ہے، اگرچہ لینے والے کے لیے جائز نہیں، البتہ اس واقعے میں یہ صراحت نہیں کہ وہ صدقہ فرض تھا یا نفل۔ ہاں، اگر جان بوجھ کر غیر مستحق کو ادا کرے تو وہ بریٔ الذمہ نہ ہوگا۔ (3) چور اور زانیہ اگر فقیر تھے تو وہ صدقے کے مستحق تھے۔ ہو سکتا ہے کہ چور فقر کی وجہ سے چوری کرتا ہو اور زانیہ بھی فقر کی وجہ سے زنا کا ارتکاب کرتی ہو۔ اگرچہ اس صورت میں بھی یہ جرائم ان کے لیے جائز نہ تھے مگر ان جرائم کے باوجود وہ فقر کی وجہ سے زکاۃ کے مستحق تھے۔ صدقہ کرنے والے کا اظہار افسوس عرف کے طور پر تھا کیونکہ عموماً جرائم پیشہ لوگوں کو صدقہ نہیں دیا جاتا، مگر شرعاً ایسی کوئی پابندی نہیں۔ ممکن ہے ان سے تعاون ان کی اصلاح کا سبب بن جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2524