سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book of Zakah
12. بَابُ : الْجَمْعِ بَيْنَ الْمُتَفَرِّقِ وَالتَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُجْتَمِعِ
12. باب: الگ الگ مال کو ملانے اور ملے ہوئے مال کو الگ الگ کرنے کا بیان۔
Chapter: Combining What Is Separate And Separating What Is Combined
حدیث نمبر: 2459
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري عن هشيم عن هلال بن خباب عن ميسرة ابي صالح عن سويد بن غفلة قال: اتانا مصدق النبي صلى الله عليه وسلم فاتيته فجلست إليه فسمعته يقول إن في عهدي ان لا ناخذ راضع لبن ولا نجمع بين متفرق ولا نفرق بين مجتمع فاتاه رجل بناقة كوماء فقال خذها فابى.‏
(مرفوع) أخبرنا هناد بن السري عن هشيم عن هلال بن خباب عن ميسرة أبي صالح عن سويد بن غفلة قال: أتانا مصدق النبي صلى الله عليه وسلم فأتيته فجلست إليه فسمعته يقول إن في عهدي أن لا نأخذ راضع لبن ولا نجمع بين متفرق ولا نفرق بين مجتمع فأتاه رجل بناقة كوماء فقال خذها فأبى.‏
سوید بن غفلہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محصل (زکاۃ) ہمارے پاس آیا، میں آ کر اس کے پاس بیٹھا تو میں نے اسے کہتے ہوئے سنا کہ میرے عہد و قرار میں یہ بات شامل ہے کہ ہم دودھ پلانے والے جانور نہ لیں۔ اور نہ الگ الگ مال کو یکجا کریں، اور نہ یکجا مال کو الگ الگ کریں۔ پھر ان کے پاس ایک آدمی اونچی کوہان کی ایک اونٹنی لے کر آیا، اور کہنے لگا: اسے لے لو، تو اس نے انکار کیا ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: کیونکہ محصل زکاۃ کو بہترین مال لینے سے منع کیا گیا ہے، اسے درمیانی مال میں سے لینا چاہیئے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة4 (1579)، سنن ابن ماجہ/الزکاة11 (1801)، (تحفة الأشراف: 15593)، مسند احمد (4/315)، سنن الدارمی/الزکاة 8 (1670) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1579) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 340

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2459 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2459  
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کے شواہد ہیں، تاہم شواہد پر صحت اور ضعف کا حکم نہیں لگایا جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے اس روایت کو حسن کہا ہے اور بعض نے صحیح اور اس کے متابعات اور شواہد ذکر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 22/ 125- 127، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 31/ 132، 133، وصحیح سنن أبي داؤد (مفصل للألباني، رقم: 1409)
(2) زکاۃ میں درمیانہ جانور لیا جائے گا تاکہ مالک کا نقصان ہو نہ فقراء کا۔ دودھ پیتا بچہ فقراء کے لیے نقصان دہ ہے اور دودھ دینے والا جانور دینا مالک کے لیے نقصان دہ ہے۔ بعض اہل علم نے یہ معنیٰ کیے ہیں کہ ہم اس جانور کی زکاۃ نہیں لیں گے جو دودھ کے لیے رکھا گیا ہو کیونکہ ایسا جانور چرنے والا نہیں ہوتا بلکہ اسے خصوصی چارا ڈالا جاتا ہے۔
(3) علیحدہ جانوروں کو اکٹھا کرنا یا اکٹھے جانوروں کو الگ الگ کرنا جس طرح مالک کے لیے جائز نہیں، اسی طرح زکاۃ وصول کرنے والے کے لیے بھی جائز نہیں، مثلاً: دو بھائیوں کی الگ الگ تیس تیس بکریوں کو ملا کر زکاۃ وصول نہیں کی جائے گی۔
(4) اس نے انکار کر دیا۔ کیونکہ ایسی قیمتی چیز زکاۃ میں لینا جائز نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2459   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.