ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا دونوں نے ایک ہی برتن سے غسل کیا، ایک ٹب سے جس میں گندھے ہوئے آٹے کا اثر تھا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطھارة 35 (378)، (تحفة الأشراف: 18012)، مسند احمد 6/342 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابن ماجه (378) ابن أبى نجيح مدلس وعنعن. وحديث الآتي (415) يغني عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 322
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 241
241۔ اردو حاشیہ: جس برتن میں آٹا گوندھا جائے، اس میں صفائی کے باوجود آٹے کے کچھ نہ کچھ نشانات رہ جاتے ہیں لیکن چونکہ یہ قلیل ہوتے ہیں۔ ویسے بھی آٹا پاک چیز ہے، لہٰذا ایسے برتن میں پانی ڈالنا اور اس سے وضو اور غسل کرنا درست ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کا اس تبویب سے یہی مقصد ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 241
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ابن ماجه 378
«وعن الثاني ما أخرجه عن اسم الماء المطلق من المغيرات الطاهرة» ”اور (پانی کے) دوسرے وصف (پاک کرنے والا) سے اسے ایسی پاک اشیاء بھی خارج کر دیتی ہیں جو اسے سادہ (یعنی مطلق) پانی نہ رہنے دیں۔“ ◈ کیونکہ جس پانی کو بطور طہارت استعمال کرنے کا شریعت نے ہمیں حکم دیا ہے وہ محض وہی ہے جس پر مطلق طور پر لفظ «مآء»(پانی) بولا جا سکتا ہو جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: «مَاءً طَهُورًا»[الفرقان: 48] اور حدیث میں ہے: «إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ»[صحيح: أبوداود 67] (جمہور، مالک، شافعی) اسی کے قائل ہیں۔ [المجموع 95/1، هداية المجتهد 54/1] (ابن قدامہ حنبلی) جمہور کے موقف کو ترجیح حاصل ہے۔ [المغني لابن قدامة 25/1] (ابن حزم) جب تک پانی پر لفظ «مآء»(پانی) بولا جا سکتا ہے اس وقت تک وہ طاہر و مطہر ہے۔ [المحلى بالآثار 193/1] (شوکانی) کسی پاک چیز کے ملنے کی وجہ سے جس پانی پر مائے مطلق کا نام نہ بولا جا سکے بلکہ اس پر کوئی خاص نام بولا جاتا ہو مثلاً گلاب کا پانی وغیرہ تو وہ صرف فی نفسہ طاہر ہو گا دوسروں کے لیے مطہر نہیں ہو گا۔ [السيل الجرار 56/1] (احناف) پاک چیز ملنے کی وجہ سے متغیر پانی مطہر بھی ہو گا جب تک کہ یہ تغیر پکانے کی وجہ سے نہ ہوا ہو۔ [هداية المجتهد 54/1] (راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔ [المغني 20/1، السيل الجرار 56/1] ↰ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے قدرے تفصیل کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسا پانی جس میں زعفران، صابن یا آٹے وغیرہ کی مثل کوئی ایسی چیز مل جائے جو اغلباً جدا ہو سکتی ہو اور اس پانی پر مائے مطلق کا لفظ بھی بولا جا سکے تو وہ پانی پاک ہونے کے ساتھ ساتھ پاک کرنے والا بھی ہے لیکن اگر وہ چیز پانی کو مائے مطلق (سادہ پانی) کے نام سے خارج کر دے تو پانی فی نفسہ پاک ہو گا لیکن دوسری اشیاء کے لیے پاک کرنے والا نہیں ہو گا جیسا کہ مندرجہ ذیل دلائل اس پر شاھد ہیں: ➊ «فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً»[4-النساء:43] قرآن نے طہارت کے لیے مائے مطلق کا ہی ذکر کیا ہے۔ ➋ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے تین یا پانچ مرتبہ یا اسے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو اگر تم ضرورت محسوس کرو «وَاغْسِلْنَهَا بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا»”پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخر میں کافور ڈالو۔“[صحيح مسلم 2173]۱؎ ➌ حضرت ام ہانی بنت أبی طالب رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گنبد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ٹب میں غسل کیا جس میں آٹے کے آثارنمایاں تھے۔ [نسائي 214] ➍ ایک روایت میں ہے کہ «اغْتَسَلَ وَمَيْمُونَةُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ فِي قَصْعَةٍ فِيهَا أَثَرُ الْعَجِينِ»”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک ایسے ٹب میں غسل کیا جس میں آٹے کے نشانات موجود تھے۔“[ابن ماجه 378]۲؎ ◈ ان احادیث میں پانی اور کافور کے درمیان، اور پانی اور آٹے کے درمیان آمیزش و ملاوٹ اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل کروانا اور خود کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسی پاک اشیاء کی ملاوٹ کے بعد بھی اگر مائے مطلق کا نام باقی رہے تو اس پانی سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔ [فقه السنه 14/1، السيل الجرار 56/1] ------------------ ۱؎[مسلم 2173 كتاب الجنائز: باب فى غسل الميت، بخاري مع الفتح 125/3، مؤطا 222/1، مسند شافعي 203/1، احمد 4: 407/6، أبوداود 3142، ترمذي 990، نسائي 28/4، ابن ماجة 1458] ۲؎[صحيح: صحيح ابن ماجة 303، كتاب الطهارة وسننها: باب الرجل والمرأة يغتسلان من إناء واحد، ابن ماجة 378، نسائي 131/1، احمد 342/6، إرواء الغليل 64/1، المشكاة 485] * * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 129
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث378
´ایک ہی برتن سے مرد اور عورت کے غسل کا بیان۔` ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور میمونہ رضی اللہ عنہا نے لگن جیسے ایک برتن سے غسل کیا جس میں آٹے کے اثرات تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 378]
اردو حاشہ: (1) ہمارےفاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف قراردیا ہے اور اس کی بابت لکھتے ہیں کہ سنن النسائی کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے جبکہ شیخ البانی ؒ نے مذکورہ روایت کو ہی صحیح قراردیا ہے دیکھیے: (الارواء: 1؍64) لہٰذا معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت قابل حجت ہے۔
(2) آٹا لگا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ برتن میں آٹا گوندھا گیا تھا بعد میں برتن صاف کرتے وقت کچھ تھوڑا بہت ادھر ادھر رہ گیا۔ اسی برتن میں پانی ڈال لیا گیا چونکہ آٹا پاک چیز ہےاور اگر اس میں معمولی مقدار میں پانی میں مل بھی گیا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 378