(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن المبارك، قال: حدثنا وكيع، عن الاسود بن شيبان وكان ثقة، عن خالد بن سمير، عن بشير بن نهيك، ان بشير ابن الخصاصية، قال: كنت امشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فمر على قبور المسلمين، فقال:" لقد سبق هؤلاء شرا كثيرا"، ثم مر على قبور المشركين , فقال:" لقد سبق هؤلاء خيرا كثيرا"، فحانت منه التفاتة، فراى رجلا يمشي بين القبور في نعليه , فقال:" يا صاحب السبتيتين القهما". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ شَيْبَانَ وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَيْرٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، أَنَّ بَشِيرَ ابْنَ الْخَصَاصِيَةِ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرَّ عَلَى قُبُورِ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ:" لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلَاءِ شَرًّا كَثِيرًا"، ثُمَّ مَرَّ عَلَى قُبُورِ الْمُشْرِكِينَ , فَقَالَ:" لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلَاءِ خَيْرًا كَثِيرًا"، فَحَانَتْ مِنْهُ الْتِفَاتَةٌ، فَرَأَى رَجُلًا يَمْشِي بَيْنَ الْقُبُورِ فِي نَعْلَيْهِ , فَقَالَ:" يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ أَلْقِهِمَا".
بشیر بن خصاصیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ مسلمانوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”یہ لوگ بڑے شر و فساد سے (بچ) کر آگے نکل گئے“، پھر آپ مشرکوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”یہ لوگ بڑے خیر سے (محروم) ہو کر آگے نکل گئے“، پھر آپ متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص اپنی دونوں جوتیوں میں قبروں کے درمیان چل رہا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سبتی جوتوں والو! انہیں اتار دو“۔
مر على مقابر المسلمين فقال أدرك هؤلاء خيرا كثير ثم مر على مقابر المشركين فقال سبق هؤلاء خيرا كثيرا قال فالتفت فرأى رجلا يمشي بين المقابر في نعليه فقال يا صاحب السبتيتين ألقهما
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2050
اردو حاشہ: اس حدیث سے ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان میں جوتوں سمیت نہیں چلنا چاہیے تاکہ قبروں کا احترام قائم رہے، آئندہ دو روایات سے امام صاحب رحمہ اللہ نے قبرستان میں جوتوں سمیت چلنے کا جواز نکالا ہے، اس لیے وہ ظاہر الفاظ کی رعایت سے یہ تطبیق دے رہے ہیں کہ رنگ کر صاف کیے ہوئے چمڑے کے جوتے پہن کر چلنا منع ہے، سادہ جوتے پہن کر چل سکتا ہے مگر یہ تطبیق دل کو نہیں لگتی۔ آئندہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ”جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور دفنانے والے واپس آ جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔“ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبرستان میں جوتوں سمیت جانا اور قبروں کے درمیان پھر ناجائز ہے کیونکہ اس کی کوئی صراحت نہیں۔ قبرستان میں داخل ہوتے وقت جوتے اتار دیے جائیں اور واپسی پر پہن لیے جائیں۔ یہ مفہوم اس حدیث کے مخالف نہیں بلکہ عین موافق ہے، اس لیے راجح بات یہی ہے کہ قبرستان میں جوتے پہن کر نہ جایا جائے، اگر کوئی ایسا عذر ہے کہ جوتوں کے بغیر اندر جانا ممکن نہیں، مثلاً کانٹے یا کنکریاں وغیرہ ہیں یا زمین بہت گرم ہے تو پھر مجبوری کے تحت پہنے جا سکتے ہیں۔ ﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ﴾ اور ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ کا تقاضا یہی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2050
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1568
´قبرستان میں جوتا اتار کر چلنا۔` بشیر ابن خصاصیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ نے فرمایا: ”اے ابن خصاصیہ! تجھے اللہ سے کیا شکوہ ہے (حالانکہ تجھے یہ مقام حاصل ہو گیا ہے کہ) تو رسول اللہ کے ساتھ چل رہا ہے“؟ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! مجھے اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہیں۔ مجھے اللہ نے ہر بھلائی عنایت فرمائی ہے۔ (اسی اثناء میں) آپ مسلمانوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”انہیں بہت بھلائی مل گئی۔“ پھر مشرکوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”یہ بہت سی بھلائی سے محروم رہ گئے۔“ اچانک آپ کی نگاہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1568]
اردو حاشہ: فوائدو مسائل:
(1) قبرستان میں جوتے پہن کر چلنے کو علامہ نواب وحید الزمان خاں نے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے۔ کیونکہ دوسری حدیث میں قبر میں ہونے والے سوالات کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ ”بندے کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے۔ اور اس کے ساتھی (دفن کرنے والے افراد) واپس لوٹتے ہیں۔ کہ وہ ابھی ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے۔ کہ اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، “(صحیح البخاري، الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، حدیث: 1338)
(2) مومن کےلئے موت خیر کا باعث ہے۔ کیونکہ موت کے بعد ہی اسے نیک اعمال کی جزا اور جنت کی نعمتیں ملتی ہیں۔ جب کہ کافر کے لئے موت اس کے بُرے اعمال کی سزا کی ابتداء ہے۔
(3) اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور ان پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
(4) غلطی پر تنبیہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ غلطی کرنے والے کو براہ راست اس کی غلطی سے آگاہ کردیا جائے اور اسے غلطی کے ازالے کا حکم دیا جائے۔ یہ اس صورت میں زیادہ مؤثر ہے۔ جب منع کرنے والا غلطی کرنے والے کی نگاہ میں قدرومنزلت کا حامل ہو۔ اس صورت میں اس کا احترام اور اس کی عظمت کا احساس نصیحت قبول کرنے کی ایک اہم وجہ بن جاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1568