(مرفوع) اخبرني عبد الرحمن بن خالد القطان الرقي، قال: حدثنا حجاج، قال ابن جريج: اخبرني ابو الزبير، انه سمع جابرا، يقول:" خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم , فذكر رجلا من اصحابه مات فقبر ليلا وكفن في كفن غير طائل، فزجر رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقبر إنسان ليلا إلا ان يضطر إلى ذلك". (مرفوع) أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ الْقَطَّانُ الرَّقِّيُّ، قال: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قال ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ:" خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ مَاتَ فَقُبِرَ لَيْلًا وَكُفِّنَ فِي كَفَنٍ غَيْرِ طَائِلٍ، فَزَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْبَرَ إِنْسَانٌ لَيْلًا إِلَّا أَنْ يُضْطَرَّ إِلَى ذَلِكَ".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ(ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا (آپ نے اس میں) اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کا ذکر کیا جو مر گیا تھا، اسے رات ہی میں دفنا دیا گیا، اور ایک گھٹیا کفن میں کفنایا گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرما دیا کہ کوئی رات میں دفنایا جائے، سوائے اس کے کہ وہ اس کے لیے مجبور کر دیا جائے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2016
اردو حاشہ: (1) یہ حدیث صحیح مسلم (943) میں بھی ہے، اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت میت کو دفن کرنے پر ڈانٹا سوائے اس صورت کے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھ لی گئی ہو۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس صحابی کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی لیکن ایسا ہونا بعید ازقیاس ہے، اس لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کے معنیٰ یہ کیے ہیں: اگر نماز جنازہ دن کے وقت پڑھ لی گئی ہو تو پھر رات کے وقت دفنانا جائز ہے کیونکہ آپ کے فرمان ”سوائے مجبوری کے“ کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ مجبوری کے وقت نماز جنازہ ترک کر دی جائے، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ مجبوری کے وقت رات کو دفن کرنا جائز ہے۔ (2) رات کے وقت نماز جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ اس میں راجح بات یہ ہے کہ افضل تو یہی ہے کہ دن کے وقت نماز جنازہ ادا کی جائے تاکہ زیادہ لوگ شامل ہوسکیں کیونکہ یہ شرعاً مطلوب ہے، البتہ بوقت ضرورت رات کے وقت بھی نماز جنازہ ادا کی جا سکتی ہے جیسا کہ صحیح روایات سے ثابت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2016