(مرفوع) اخبرنا عبد الرحمن بن خالد الرقي القطان، ويوسف بن سعيد واللفظ له، قال: انبانا حجاج، عن ابن جريج، قال: اخبرني ابو الزبير، انه سمع جابرا، يقول: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر رجلا من اصحابه مات فقبر ليلا وكفن في كفن غير طائل , فزجر رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقبر إنسان ليلا إلا ان يضطر إلى ذلك , وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا ولي احدكم اخاه فليحسن كفنه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ الرَّقِّيُّ الْقَطَّانُ، وَيُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قال: أَنْبَأَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قال: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ مَاتَ فَقُبِرَ لَيْلًا وَكُفِّنَ فِي كَفَنٍ غَيْرِ طَائِلٍ , فَزَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْبَرَ إِنْسَانٌ لَيْلًا إِلَّا أَنْ يُضْطَرَّ إِلَى ذَلِكَ , وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا وَلِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُحَسِّنْ كَفْنَهُ".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا تو آپ نے اپنے صحابہ میں سے ایک شخص کا ذکر کیا جو مر گیا تھا، اور اسے رات ہی میں دفنا دیا گیا تھا، اور ایک گھٹیا کفن میں اس کی تکفین کی گئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرما دیا کہ کوئی آدمی رات میں دفنایا جائے سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری ہو، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی (کے کفن دفن کا) ولی ہو تو اسے چاہیئے کہ اسے اچھا کفن دے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1896
1896۔ اردو حاشیہ: ➊ کفن اچھا ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ نیا کپڑا ہو، مستعمل نہ ہو، سفید ہو، رنگ دار نہ ہو (تاکہ پر ان ے نئے کا اندازہ ہو سکے)، صاف ستھرا ہو، میلا کچیلا نہ ہو۔ درمیانی قیمت کا ہو جو دیکھنے میں نامناسب معلوم نہ ہو اور عوام الناس اسے استعمال کرتے ہوں۔ سادہ ہو، منقش نہ ہو۔ یہ مطلب نہیں کہ قیمتی اور مہنگا ہو کیونکہ بعض روایات میں مہنگے کفن سے صراحتاً روکا گیا ہے۔ ➋ مذکورہ حدیث سے اور اس موضوع کی دیگر تمام روایات جمع کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ رات کے وقت مردوں کو دفن کرنا جائز نہیں الا یہ کہ کوئی مجبوری اور اشد ضرورت پیش آ جائے۔ رات کے وقت تدفین کی ممانعت ممکن ہے اس گمان کی وجہ سے ہو کہ نماز جنازہ میں لوگ کم تعداد میں شریک ہں گے، نیز کفن دفن میں کوتاہی ہو گی۔ لیکن اگر نماز جنازہ پڑھ لی گئی ہو تو عذر کے پیش نظر رات کو بھی دفن کرنا پڑے تو جائز ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت میت کو قبر میں دفن کیا تھا۔ (جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 1057) نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقات بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رات کے وقت دفن کیا گیا۔ (صحیح البخاري، الجنائز، قبل الحدیث: 1340) مسند احمد میں حضر عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے وقت دفن کیا گیا۔ (مسند أحمد: 110، 62/6) مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بابت مروی ہے کہ ان کو رات کے وقت دفن کیا گیا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ: 31/3) مذکورہ روایات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مجبوری اور عذر کے پیش نظر رات کے وقت دفن کرنا جائز ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1896
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 440
´مرنے والوں کو اچھا کفن دینا چاہیے` ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اسے اچھا کفن دینا چاہیے . . .“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 440]
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ ➋ اچھا اور عمدہ کفن دینے کا مطلب یہ ہے کہ کفن کا کپڑا صاف ستھرا اور عمدہ ہونا چاہیے اور وہ اس قدر کہ میت کے جسم کو اچھی طرح ڈھانپ لے۔ ➌ اچھے کفن سے مراد یہ نہیں کہ وہ قیمتی ہو، قیمتی کفن کی ممانعت آئندہ حدیث میں آ رہی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 440
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3148
´کفن کا بیان۔` ابوالزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے سنا کہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا جس میں اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کا ذکر کیا جن کا انتقال ہو گیا تھا، انہیں ناقص کفن دیا گیا، اور رات میں دفن کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ڈانٹا کہ رات میں کسی کو جب تک اس پر نماز جنازہ نہ پڑھ لی جائے مت دفناؤ، إلا یہ کہ انسان کو انتہائی مجبوری ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ بھی) فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اچھا کفن دے۔“[سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3148]
فوائد ومسائل: اس سے مراد مہنگا اور قیمتی کفن نہیں۔ بلکہ سادہ صاف ستھرا اور مکمل کفن ہے۔ اس بیان میں یہ بھی ہے کہ کسی بھی مسلمان بھائی کو کفن دینا ایک مستحسن کام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3148
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2185
ابوزبیر بتاتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا اور اپنے ساتھیوں میں سے ایک آدمی کا تذکرہ فرمایا، جسے مرنے کے بعد حقیر سے چھوٹے کپڑے میں کفن دیا گیا، اور رات ہی کو دفن کردیا گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر سرزنش وتوبیخ فرمائی کہ کسی آدمی کو جنازہ پڑھے بغیر رات کو دفن کر دیا جائے، الا یہ کہ کوئی انسان ایسا کرنے پر مجبور ہو اور نبی اکرم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2185]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ میت کی بھلائی اور بہتری کی خاطر اسے ایسے وقت میں دفن کیا جائے جس وقت اس کی نماز میں زیادہ لوگ شریک ہو کر اس کے لیے دعا کر سکیں۔ اور خصوصی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، آپﷺ دن کے جنازوں میں شریک ہوتے تھے۔ اس لیے دن کے جنازہ میں زیادہ لوگ جمع ہو جاتے تھے لیکن اگر رات کے جنازہ میں زیادہ لوگ جمع ہو سکتے ہوں تو رات کو بھی جنازہ پڑھایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بہت سے دوسرے بزرگوں کا جنازہ رات کو پڑھایا گیا ہے۔ لیکن کفن کی خست وحقارت کے سبب اور نماز جنازہ کی پرواہ کیے بغیر رات کے دفن کرنا درست نہیں ہے۔ 2۔ کفن صاف ستھرے، سفید اور اچھے کپڑے سے تیار کرنا چاہیے جو میت کو پوری طرح ڈھانپتا ہو لیکن اچھے کا معنی قیمتی نہیں ہے کہ ریا وسمع کرتے ہوئے بیش قیمت کفن تیار کیا جائے بلکہ عام طور پر مرنے والا جو صاف ستھرااوراچھا لباس پہنتا تھا۔ اسی قسم کا کفن ہونا چاہیے۔