(مرفوع) اخبرنا عتبة بن عبد الله بن عتبة، قال: قرات على مالك، عن عبد الله بن عبد الله بن جابر بن عتيك، ان عتيك بن الحارث وهو جد عبد الله بن عبد الله ابو امه اخبره، ان جابر بن عتيك اخبره، ان النبي صلى الله عليه وسلم جاء يعود عبد الله بن ثابت فوجده قد غلب عليه فصاح به فلم يجبه , فاسترجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال:" قد غلبنا عليك ابا الربيع"، فصحن النساء وبكين فجعل ابن عتيك يسكتهن , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دعهن فإذا وجب فلا تبكين باكية" , قالوا: وما الوجوب يا رسول الله؟ قال:" الموت" , قالت ابنته: إن كنت لارجو ان تكون شهيدا قد كنت قضيت جهازك , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فإن الله عز وجل قد اوقع اجره عليه على قدر نيته، وما تعدون الشهادة؟" , قالوا: القتل في سبيل الله عز وجل , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الشهادة سبع سوى القتل في سبيل الله عز وجل، المطعون شهيد , والمبطون شهيد , والغريق شهيد , وصاحب الهدم شهيد , وصاحب ذات الجنب شهيد , وصاحب الحرق شهيد , والمراة تموت بجمع شهيدة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، أَنَّ عَتِيكَ بْنَ الْحَارِثِ وَهُوَ جَدُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو أُمِّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَتِيكٍ أَخْبَرَهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ثَابِتٍ فَوَجَدَهُ قَدْ غُلِبَ عَلَيْهِ فَصَاحَ بِهِ فَلَمْ يُجِبْهُ , فَاسْتَرْجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" قَدْ غُلِبْنَا عَلَيْكَ أَبَا الرَّبِيعِ"، فَصِحْنَ النِّسَاءُ وَبَكَيْنَ فَجَعَلَ ابْنُ عَتِيكٍ يُسَكِّتُهُنَّ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعْهُنَّ فَإِذَا وَجَبَ فَلَا تَبْكِيَنَّ بَاكِيَةٌ" , قَالُوا: وَمَا الْوُجُوبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" الْمَوْتُ" , قَالَتِ ابْنَتُهُ: إِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ شَهِيدًا قَدْ كُنْتَ قَضَيْتَ جِهَازَكَ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَهُ عَلَيْهِ عَلَى قَدْرِ نِيَّتِهِ، وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ؟" , قَالُوا: الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، الْمَطْعُونُ شَهِيدٌ , وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ , وَالْغَرِيقُ شَهِيدٌ , وَصَاحِبُ الْهَدَمِ شَهِيدٌ , وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ , وَصَاحِبُ الْحَرَقِ شَهِيدٌ , وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدَةٌ".
جابر بن عتیک انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی عیادت (بیمار پرسی) کرنے آئے تو دیکھا کہ بیماری ان پر غالب آ گئی ہے، تو آپ نے انہیں زور سے پکارا (لیکن) انہوں نے (کوئی) جواب نہیں دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «اناللہ وانا اليہ راجعون» پڑھا، اور فرمایا: ”اے ابو ربیع! ہم تم پر مغلوب ہو گئے“(یہ سن کر) عورتیں چیخ پڑیں، اور رونے لگیں، ابن عتیک انہیں چپ کرانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں چھوڑ دو لیکن جب واجب ہو جائے تو ہرگز کوئی رونے والی نہ روئے“۔ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! (یہ) واجب ہونا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”مر جانا“، ان کی بیٹی نے اپنے باپ کو مخاطب کر کے کہا: مجھے امید تھی کہ آپ شہید ہوں گے (کیونکہ) آپ نے اپنا سامان جہاد تیار کر لیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی نیت کے حساب سے انہیں اجر و ثواب دے گا، تم لوگ شہادت سے کیا سمجھتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارا جانا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارے جانے کے علاوہ شہادت (کی) سات (قسمیں) ہیں، طاعون سے مرنے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے، عمارت سے دب کر مرنے والا شہید ہے، نمونیہ میں مرنے والا شہید ہے، جل کر مرنے والا شہید ہے، اور جو عورت جننے کے وقت یا جننے کے بعد مر جائے وہ شہید ہے“۔
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن ثابت کی کنیت ہے مطلب یہ ہے کہ تقدیر ہمارے ارادے پر غالب آ گئی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجنائز 15 (3111)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 17 (2803)، (تحفة الأشراف: 3173)، موطا امام مالک/الجنائز 12 (36)، مسند احمد 5/446، ویأتی عند المؤلف فی الجھاد 48 (بأرقام: 3196، 3197) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1847
1847۔ اردو حاشیہ: ➊ ”جب وہ مر جائے تو پھر کوئی نہ روئے“ کیونکہ نوحہ و بین مرنے کے بعد ہوتے ہیں، پہلے نہیں، لہٰذا کسی کی موت سے پلے گھر والے رو سکتے ہیں کیونکہ رونا منع نہیں بلکہ نوحہ اور شکوہ شکایت منع ہے۔ جو موت کے بعدہی ہوتے ہیں۔ ➋ ”شہادت فی سبیل اللہ“ کے علاوہ شہادت کی سات صورتیں اور ہیں جن کی اس حدیث میں صراحت ہے۔ انہیں کس وجہ سے شہادت فی سبیل اللہ کے درجے میں رکھا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمیں بہرحال اس پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ حدیث میں مذکور افراد کو شہداء کے درجے سے سرفراز فرمائے گا۔ ➌ ”سات صورتیں“ بعض دیگر احادیث میں انفرادی طورپ ر شہادت کی اور بھی کئی صورتیں ذکر کی گئی ہیں۔ وہ اس روایت کے منافی نہیں کیونک سات میں زائد کی نفی نہیں۔ گویا بطور مثال یہ سات ذکر کی ہیں، ورنہ اور بھی ہیں۔ ➍ مریض کی عیادت کرنا ثواب کا کام ہے، نیز اس سے مریض کی دل جوئی ہوتی ہے۔ ➎ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے اگر آدمی نے کسی کام کی نیت کی ہوئی ہو اور اس کے لیے تیاری مکمل ہے لیکن اسے کرنے کا موقع نہیں ملا، تو اسے اس کی نیت کے مطابق اس کام کے کرنے کا اجر مل جائے گا۔ ➏ عالم کو چاہیے ک مسئلہ سمجھانے کا ایسا انداز اپنائے کہ سامعین کے دل میں وہ راسخ ہو جائے، کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔ ➐ اللہ تعالیٰ کا اس امت پر فضل عظیم ہے کہ اس نے اس کے لیے شہادت کے کئی اسباب بنائے تاکہ یہ امت ان کی بنا پر بلند درجات حاصل کر سکے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1847