(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثني اشعث بن سليم، عن الاسود بن هلال، عن ثعلبة بن زهدم، قال: كنا مع سعيد بن العاصي بطبرستان , فقال: ايكم صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الخوف؟ فقال حذيفة: انا، فقام حذيفة" فصف الناس خلفه صفين صفا خلفه وصفا موازي العدو، فصلى بالذي خلفه ركعة ثم انصرف هؤلاء إلى مكان هؤلاء , وجاء اولئك فصلى بهم ركعة ولم يقضوا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قال: حَدَّثَنِي أَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ زَهْدَمٍ، قال: كُنَّا مَعَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِي بِطَبَرِسْتَانَ , فَقَالَ: أَيُّكُمْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا، فَقَامَ حُذَيْفَةُ" فَصَفَّ النَّاسُ خَلْفَهُ صَفَّيْنِ صَفًّا خَلْفَهُ وَصَفًّا مُوَازِيَ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِالَّذِي خَلْفَهُ رَكْعَةً ثُمَّ انْصَرَفَ هَؤُلَاءِ إِلَى مَكَانِ هَؤُلَاءِ , وَجَاءَ أُولَئِكَ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً وَلَمْ يَقْضُوا".
ثعلبہ بن زہدم کہتے ہیں کہ ہم سعید بن عاصی کے ساتھ طبرستان میں تھے، تو انہوں نے پوچھا: تم لوگوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خوف کی نماز کس نے پڑھی ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے، پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے، اور لوگوں نے ان کے پیچھے دو صف بنائی، ایک صف ان کے پیچھے تھی، اور ایک صف دشمن کے مقابلہ میں تھی، تو انہوں نے ان لوگوں کو جو ان کے پیچھے تھے ایک رکعت پڑھائی، پھر یہ لوگ دوسری صف والوں کی جگہ پر لوٹ گئے، اور وہ لوگ ان لوگوں کی جگہ پر آ گئے، پھر انہوں نے انہیں بھی ایک رکعت پڑھائی، اور ان لوگوں نے قضاء نہیں کی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی دونوں گروہوں نے ایک ایک رکعت ہی پر بس کیا کسی نے دوسری رکعت نہیں پڑھی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1531
1531۔ اردو حاشیہ: ➊ نماز خوف کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے بلکہ یہ واحد نماز ہے جس کا طریقہ بھی اجمالی طور پر قرآن کریم میں بتلایا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات پر یہ نماز پڑھی۔ مگر حنفیہ میں سے امام ابویوسف رحمہ اللہ اور شوافع میں سے امام مزنی رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے قرآن یا احادیث میں مذکور طریقوں سے پڑھنا جائز نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال ہے کہ نماز خوف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی کیونکہ ہر شخص آپ کے کے پیچھے نماز پڑھنے کا خواہاں تھا۔ جنگ اور خوف کی وجہ سے مجبوری تھی کہ سب اکٹھے نہیں پڑھ سکتے تھے۔ دو دفعہ ایک ہی نماز پڑھنا یا پڑھانا درست نہیں لہٰذا مجبوراً یہ طریقہ اختیار کیا گیا تاکہ ہر شخص آپ کے پیچھے نماز پڑھ سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں جس کے پیچھے نماز پڑھنے کی خصوصی فضیلت ہو یا سب اس کے پیچھے نماز پڑھنے کی خواہش رکھیں۔ قرآن مجید میں بھی نمازخوف کے بیان میں خصوصاً آپ سے خطاب کیا گیا ہے: (واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوۃ)(النساء4: 102)”جب آپ ان میں ہوں تو آپ انہیں نماز پڑھائیں“ لہٰذا اب اگر خوف کا مسئلہ ہو تو دو گروہ کرلیے جائیں اور ہر گروہ کو ان کے الگ الگ امام نماز پڑھائیں۔ مذکورہ بات عقل کو بہت جچتی ہے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزعمل اس کے مطابق نہیں۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نماز خوف مخصوص طریقوں سے پڑھی ہے، لہٰذا جمہور اہل علم کے نزدیک یہ نماز اب بھی مشروع ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ ➋ احادیث میں نماز خوف کے چھ سات طریقے منقول ہیں کیونکہ خوف کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، لہٰذا ہر جگہ ایک ہی طریقے سے نماز پڑھنا ممکن نہیں جیسا کہ آئندہ احادیث سے وضاحت ہو گی۔ یہ سب احادیث صحیح ہیں۔ موقع محل کے مطابق ان میں سے کوئی سا بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ جن حضرات نے ایک طریقہ معین کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے غیرضروری تکلف برتا ہے۔ حسب حالات تمام احادیث پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ ➌ اوپر مذکورہ دو احادیث میں ایک ہی واقعے کا بیان ہے۔ نمازخوف کی مخصوص مختلف صورتوں میں سے یہ بھی ایک صورت ہے، یعنی شدید خوف میں ایک رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث: 1533۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1531