(مرفوع) اخبرنا ابو الاشعث، عن يزيد بن زريع، قال: حدثنا شعبة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من توضا يوم الجمعة فبها ونعمت ومن اغتسل فالغسل افضل" , قال ابو عبد الرحمن: الحسن عن سمرة كتابا , ولم يسمع الحسن من سمرة إلا حديث العقيقة والله تعالى اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ وَمَنِ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: الْحَسَنُ عَنْ سَمُرَةَ كِتَابًا , وَلَمْ يَسْمَعِ الْحَسَنُ مِنْ سَمُرَةَ إِلَّا حَدِيثَ الْعَقِيقَةِ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، تو اس نے رخصت کو اختیار کیا، اور یہ خوب ہے ۱؎ اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ”حسن بصری“ نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو ان کی کتاب سے روایت کیا ہے، کیونکہ حسن نے سمرہ سے سوائے عقیقہ والی حدیث کے کوئی اور حدیث نہیں سنی ہے ۲؎ واللہ اعلم۔
وضاحت: ۱؎: «فبہا» کا مطلب ہے «فبالرخصۃ أخذ» یعنی اس نے رخصت کو اختیار کیا، اور «نِعْمَتْ» کا مطلب «نعمت ہی الرخصۃ» ہے یہ رخصت خوب ہے، اس حدیث سے جمعہ کے غسل کے عدم وجوب پر استدلال کیا گیا ہے کیونکہ ایک تو اس میں وضو کی رخصت دی گئی ہے، اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔ ۲؎: صحیح بخاری میں حدیث عقیقہ کے علاوہ بھی حسن بصری کی سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایات موجود ہیں، اس بابت اختلاف ہے، مگر علی بن المدینی اور امام بخاری کی ترجیح یہی ہے کہ حسن بصری نے حدیث عقیقہ کے علاوہ بھی سمرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1381
1381۔ اردو حاشیہ: ➊ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ یہ روایت حسن بصری نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے براہِ راست نہیں سنی بلکہ ان کی کتاب سے بیان کی ہے، اس میں وہ سماع کی تصریح نہیں کرتے۔ حسن کی حضرت سمرہ سے روایت کے بارے میں محدثین کی تین آراء ہیں، حسن کا سمرہ سے علی الاطلاق سماع ثابت ہے۔ گویا اس طرح ان کی تمام مرویات سماع پر محمول ہوں گی۔ یہ موقف امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد علی بن مدینی رحمہ اللہ کا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ اوسط میں ذکر کیا ہے، نیز امام ترمذی اور امام حاکم رحمہ اللہ رحمہما اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ حسن نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا، یعنی سرے سے ان کا حضرت سمرہ سے سماع ہی ثابت نہیں۔ یہ رائے امام ابن حبان رحمہ اللہ کی ہے۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور امام شعبہ بھی اسی کے قائل ہیں، لیکن اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں۔ امام حسن کا حضرت سمرہ سے صرف حدیث عقیقہ میں سماع ثابت ہے اور بس۔ یہ موقف امام نسائی رحمہ اللہ کا ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ کا بھی اپنی سنن میں اسی طرف رجحان ہے۔ امام عبدالحق اور امام بزار وغیرہ بھی اس کے قائل ہیں۔ تاہم دلائل کی رو سے راجح موقف امام نسائی رحمہ اللہ وغیرہ ہی کا ہے، یا جس روایت میں وہ خود حضرت سمرہ سے سماع کی تصریح فرما دیں، یا شواہد کی روشنی میں اسے تقویت ملتی ہو تو وہی روایت قابل حجت ہو گی وگرنہ نہیں۔ حدیث عقیقہ میں امام حسن نے حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے خود سماع کی تصریح فرمائی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیے: [ذخیرة العقبیٰ شرح سنن السنائي: 131/16، 132] ➋ جمہور علماء اس حدیث کے پیش نظر غسل جمعہ کو مستحب قرار دیتے ہیں لیکن ان کی رائے محل نظر ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ: ”جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے۔“ وجوب کے منافی نہیں، کسی چیز کی افضیلت سے اس کے وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم۔ اس حدیث کے مفہوم کو مزید سمجھنے کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1381
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 101
´جمعہ کے روز غسل` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من توضا يوم الجمعة فبها ونعمت ومن اغتسل فالغسل افضل . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جمعہ کے روز جس نے وضو کیا اس نے اچھا اور بہتر کیا اور جس نے غسل کیا تو بہرحال افضل ہے اور بہترین ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 101]
لغوی تشریح: «فَبِهَا»”ہا“ سے مراد ”سنت“ یا ”رخصت“ یا ”خصلتِ حمیدہ“ ہے اور یہ جار مجرور «أَخَذَ» محذوف کے متعلق ہے۔ «نِعْمَتْ» یہ فعل مدح ہے۔ اس کا فاعل «هِيَ» ضمیر مستتر ہے جس کا مرجع ”سنت“ یا ”رخصت“ یا ”خصلت حمیدہ“ ہے اور مخصوص بالمدح محذوف ہے، یعنی «هٰذِهٖ» ۔
فائدہ: یہ حدیث جمعے کے روز غسل کے عدم وجوب کے مؤقف کی تائید کرتی ہے جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔ لیکن جو حدیث اس (جمعے کے روز غسل کرنے) کے وجوب پر دلالت کرتی ہے وہ عدم وجوب پر دلالت کرنے والی حدیث سے صحیح، زیادہ راجح اور زیادہ قوی ہے، اس لیے اصح، راجح اور قوی کو اختیار کرنا زیادہ محتاط طریقہ ہے۔
راویٔ حدیث: (سیدنا سَمُرَہ رضی اللہ عنہ)”سین“ کے فتحہ اور ”میم“ کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ «جُنْدُب»”جیم“ پر ضمہ، ”نون“ ساکن اور ”دال“ پر بھی ضمہ ہے۔ مشہور صحابی رسول ہیں۔ ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔ فزار قبیلہ کے فرد ہونے کی وجہ سے فزاری کہلائے۔ انصار سے حلیفانہ روابط و تعلقات تھے۔ یہ ان حفاظ میں سے تھے، جنھیں بکثرت احادیث و قرآن یاد تھا۔ بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ خوارج کے گروہ حروریہ کے سلسلے میں بڑے سخت تھے۔ 59 ہجری کے آخر میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 101
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 354
´جمعہ کے دن غسل چھوڑ دینے کی اجازت کا بیان۔` سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، تو اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ اچھی بات ہے، اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے“۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 354]
354۔ اردو حاشیہ: ان احادیث سے یہ استدلا ل کیا جاتا ہے کہ غسل جمعہ واجب نہیں ہے۔ بلاشبہ ابتداء حکم کی بنیادی وجہ یہی تھی جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بیان ہوئی ہے، مگر مسلمان جب اس کے قائل و فاعل ہو گئے تو انہیں اس کا شرعی اعتبار سے پابند کر دیا گیا، جیسا کہ گزشتہ باب میں صحیح احادیث سے ثابت ہوا ہے۔ اب اگرچہ وہ بنیادی سبب تو موجود نہیں مگر حکم وجوب باقی ہے جیسے کہ مسئلہ حج میں طواف قدوم میں رمل کرنا (آہستہ آہستہ دوڑنے) کا بنیادی وجود نہیں ہے، مگر حکم وجوب باقی ہے، اس لیے راجح یہی ہے کہ غسل جمعہ واجب ہے، اس کا اہتمام کرنا چاہیے اور اس میں غفلت بہت بڑی محرومی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 354
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 497
´جمعہ کے دن وضو کرنے کا بیان۔` سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو اس نے رخصت کو اختیار کیا اور خوب ہے یہ رخصت، اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 497]
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ جمعہ کاغسل واجب نہیں کیونکہ ایک تو اس میں وضوکی رخصت دی گئی ہے بلکہ اسے اچھاقراردیا گیا ہے اوردوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔ نوٹ:
(یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے، اورسب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری کا سماع سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ کے سوا ثابت نہیں ہے، ہاں تمام طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 497