فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1117
1117۔ اردو حاشیہ: اگر الگ کپڑا مراد ہے جیسے آج کل مصلیٰ وغیرہ ہوتا ہے تو پھر ظاہر ہے کوئی اشکال و اعتراض نہیں۔ ان پر بلاشک و شبہ نماز پڑھی جا سکتی ہے، البتہ اگر پہنے ہوئے کپڑے مراد ہوں، مثلاً: آستینیں آگے بڑھا کر ان پر ہاتھ رکھ لیے جائیں اور پگڑی نیچے کر کے اس پر ماتھا رکھ لیا جائے تو ضرورت کے وقت یہ بھی جائز ہے، مثلاً: سخت گرمی یا سردی سے بچنا، البتہ مٹی سے چہرے اور ہتھیلیوں کو بچانے کے لیے ایسا کرنا ممنوع ہے کہ یہ تکلف ہے جبکہ سردی گرمی سے بچنا انسان کی ضرورت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1117
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 542
´گرمی سے بچنے کے لیے کپڑوں پر سجدہ` «. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالظَّهَائِرِ فَسَجَدْنَا عَلَى ثِيَابِنَا اتِّقَاءَ الْحَرِّ . . .» ”. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ جب ہم (گرمیوں میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نماز دوپہر دن میں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لیے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ وَقْتِ الظُّهْرِ عِنْدَ الزَّوَالِ:: 542]
� تشریح: معلوم ہوا کہ شدت گرمی میں جب ایسی جگہ نماز پڑھنے کا اتفاق ہو کہ نہ کوئی سایہ ہو نہ فرش ہو تو کپڑے پر سجدہ کر لینا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 542
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 542
542. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب ہم رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز ظہر ادا کرتے توگرمی سے بچاؤ کے لیے اپنے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:542]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ شدت گرمی میں جب ایسی جگہ نماز پڑھنے کا اتفاق ہو کہ نہ کوئی سایہ ہو نہ فرش ہو تو کپڑے پر سجدہ کرلینا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 542
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 542
´ نماز ظہر کا وقت` «. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالظَّهَائِرِ فَسَجَدْنَا عَلَى ثِيَابِنَا اتِّقَاءَ الْحَرِّ .» ”انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا کہ جب ہم (گرمیوں میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نماز دوپہر دن میں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لیے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ: 542]
فوائد: ➊ اس روایت اور دیگر احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے، اور ظہر کی نماز اول وقت پڑھنی چاہئے۔ ➋ اس پر اجماع ہے کہ ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ [الافصاح لابن هيرة: ج 1 ص 76] ➌ جن روایت میں آیا ہے کہ جب گرمی زیادہ ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو ان تمام احادیث کا تعلق سفر کے ساتھ ہے جیسا کہ صحیح البخاری [ج1 ص 77 ح 539] کی حدیث سے ثابت ہے، حضر (گھر، جائے سکونت) کے ساتھ نہیں۔ جو حضرات سفر والی روایات کو حدیث بالا وغیرہ کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں، ان کا مؤقف درست نہیں۔ انہیں چاہئیے کہ یہ ثابت کریں کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز ٹھنڈی کر کے پڑھی ہے۔۔۔!؟ ➍ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ”جب سایہ ایک مثل ہو جائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب دو مثل ہو جائے تو عصر پڑھو۔“[موطا امام مالك: 8/1 ح 9] اس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز زوال سے لے کر ایک مثل تک پڑھ سکتے ہیں، یعنی ظہر کا وقت زوال سے لے کر ایک مثل تک ہے اور عصر کا وقت ایک مثل سے لے کر دو مثل تک ہے۔ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے التعلیق الممجد [ص 41 حاشيه 9] میں اس مؤقف اثر کا یہی مفہوم لکھا ہے، یہاں بطور تنبیہ عرض ہے کہ اس ”اثر“ کے آخری حصہ ”فجر کی نماز اندھیرے میں ادا کر“ کی دیوبندی اور بریلوی دونوں فریق مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ یہ حصہ ان کے مذہب سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ➎ سوید بن غفلہ رحمہ اللہ نماز ظہر اول وقت ادا کرنے پر اس قدر ڈٹے ہوئے تھے کہ مرنے کے لئے تیار ہو گئے، مگر یہ گوارا نہ کیا کہ ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھیں اور لوگوں کو بتایا کہ ہم ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے اول وقت نماز ظہر ادا کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 323/1 ح 3271]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:542
542. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب ہم رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز ظہر ادا کرتے توگرمی سے بچاؤ کے لیے اپنے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:542]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نماز ظہر کو اسی وقت میں ادا کیا جاتا تھا، خواہ اس کے لیے سخت گرمی ہی کو برداشت کرنا پڑتا، چنانچہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز ظہر عین دوپہر کے وقت پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 560) نماز ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنے سے متعلقہ احادیث اس کے مخالف نہیں ہیں، کیونکہ سخت گرمی میں ٹھنڈا کر کے پڑھنا افضل ہے اور زوال آفتاب کے وقت پڑھنے کی احادیث بیان جواز کے لیے ہیں یا سخت گرمی کے علاوہ دیگر اوقات سے متعلق ہیں۔ (فتح الباري: 32/2)(2) مذکورہ روایت بیان وقت کے سلسلے میں مبہم ہے، کیونکہ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب ہم ظہر کی نماز پڑھتے تو گرمی کی اتنی شدت ہوتی تھی کہ ہمیں زمین پر سجدہ کرنے کے لیےکپڑا بچھانے کی ضرورت پڑتی۔ دراصل امام بخاری ؒ نے اپنے ذوق کے مطابق یہ صحیح روایت ذکر کرکے یہ وضاحت کی ہے کہ اس ابہام کو عنوان اور اس کے تحت ذکر کردہ دیگر روایات کے مطابق زوال آفتاب کے بعد محمول کیا جائے۔ علامہ عینی ؒ نے عنوان کے ساتھ اس حدیث کی مطابقت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو ظہر کی نماز پڑھتے تھے، اس میں گرمی کی شدت ہوتی تھی۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ نماز ظہر اول وقت میں ہوتی تھی، اس لیے کہ یہی وقت سخت گرمی کا ہوتا ہے۔ (عمدة القاري: 41/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 542