(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا الجراح بن مليح ، حدثنا بكر بن زرعة ، قال: سمعت ابا عنبة الخولاني ، وكان قد صلى القبلتين مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يزال الله يغرس في هذا الدين غرسا يستعملهم في طاعته". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ زُرْعَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عِنَبَةَ الْخَوْلَانِيَّ ، وَكَانَ قَدْ صَلَّى الْقِبْلَتَيْنِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَزَالُ اللَّهُ يَغْرِسُ فِي هَذَا الدِّينِ غَرْسًا يَسْتَعْمِلُهُمْ فِي طَاعَتِهِ".
ابوعنبہ خولانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ ہمیشہ اس دین میں نئے پودے اگا کر ان سے اپنی اطاعت کراتا رہے گا ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: نئے پودے اگانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نئے نئے لوگوں کو پیدا فرمائے گا، جو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں گے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12075، ومصباح الزجاجة: 4)، مسند احمد (4/200) (حسن)»
Abu 'Inabah Al-Khawlani said that:
The Messenger of Allah (ﷺ) said: "Allah will continue to plant new people in this religion and use them in His obedience."
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث8
اردو حاشہ: (1) حضرت ابوعنبہ خولانی رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام صحابی ہیں، انہوں نے تحویل قبلہ کے حکم سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے بھی نماز پڑھی ہے، جیسا کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنھم خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے سے قبل سولہ سترہ مہینے نماز پڑھتے رہے تھے۔
(2) دین اسلام کی توسیع کسی خاص زمانہ تک محدود نہیں، بلکہ ہر دور میں لوگ دوسرے مذاہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے اور امت مسلمہ ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہوتی رہے گی۔
(3) اسلام میں کوئی شخص محض اس بنیاد پر کسی اہمیت کا مستحق نہیں ہو جاتا کہ وہ پشت ہا پشت سے مسلمان آباء و اجداد کی اولاد ہے بلکہ ہر فرد اپنے اعمال و کردار اوراپنی خدمات کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرتا ہے۔
(4) ہر دور میں اور ہر معاشرے کی ضروریات کے مطابق قرآن و حدیث کی رہنمائی میں علمی اور عملی کام کی گنجائش باقی رہے گی۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ فلاں میدان میں اسلام کی خدمت کا کام اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ اب مزید کام کی ضرورت نہیں۔ اس کام کی توفیق جس طرح نسلاً کسی مسلمان کو مل سکتی ہے، اسی طرح کسی نو مسلم کو بھی یہ شرف حاصل ہو سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 8